دنیا میں بالادستی کی جنگ میں تیزی: کالم نصرت مرزا

1945ء میں سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد دنیا یک قطبی ہو گئی تھی اور
امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھرا اور اپنا نظام و سکہ جمانے میں لگ گیا۔ اس کے خلاف دنیا میں مزاحمت ختم ہو گئی تھی، دشمن کی عدم موجودگی سے اسکی مستعدی اور بالادستی خطرے میں پڑ سکتی تھی، تو اس نے کمزور مسلمانوں کو بنیاد پرست بنا کر اپنے عوم کے سامنے ایسے دشمن کے طور پر پیش کیا جس سے امریکہ کو سخت خطرہ لاحق ہو سکتا تھا، اور یہ اسکے جھانسے میں آئے یہ اسکے آلہ کار بنے ، چنانچہ افریقہ سے لے کر افغانستان تک اور برما میں بھی مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ روس نے اپنے تیئں یہ کوشش کی کہ وہ مغرب کا اتحادی بن کر رہے مگر امریکہ نے اسکو ہمیشہ دشمن سمجھا اور اکے پرانے اتحادیوں کو نیٹو میں شامل کرتا رہا جب خطرہ روس کے دروازے پر پہنچا اور یوکرائن کو امریکہ نے نیٹو میں شامل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو روس امریکہ کے خلاف صف آرا ہو گیا۔ یوکرائن میں کافی خون بہا، اب روس نے مغرب کی طرف رخ کرنا چھوڑ دیا اور یورشیائی طاقت کے طور پر ابھرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ چین سے جڑ گیا۔ امریکی کرنسی ڈالر کی بجائے دوسری کرنسیوں کو تجارتی لین دین کی کرنسی بنانے لگا تو امریکہ شیل گیس کی نئی ایجاد لے آیا جو روس کے تیل سے سستی ہے۔ یورپ میں روسی تیل کی فروخت کم ہو گئی تو چین روس کی مدد کو آیا، اس نے روس کا تیل خریدنا شروع کر دیا جو ملک بھی امریکی ڈالر کو عالمی تجارت کی کرنسی کے طور پر چیلنج کرتا ہے امریکہ اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے ، جسے اس نے عراق کو تباہ کیا۔

جاپان کے شہنشاہ نے چین کے صدر سے مل کر ایسی ہی ایک کوشش کی تو امریکہ نے جاپان پر ہارپ ہتھیار سے حملہ کر کے سونامی لے آیا اور جاپانی پھر سے امریکہ کے مطیع ہو گئے تاہم امریکہ کو اس وقت کئی چیلنجوں کا سامنہ ہے۔ اسکی بالادستی خطرے میں ہے اسکا نظام گل سڑ گیا ہے، اسکی کرنسی کا استعمال کظرے میں پڑ گیا ہے، کئی خطوں میں امریکہ کو عسکری چیلنجوں کا سامنا ہے۔ جیسے یوکرائن ، جنوبی بحری چین ، قطب شمالی کا خطہ، مشرق وسطی اور برصغیر میں جنگ کو مصنوعی طور پر بھارت کے ذریعے پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں دنیا میں یہ سوچ پیدا ہو گئی کہ پرانا نظام واقعی گل سڑ گیا ہے اسے باقی نہیں رہنا چاہیے۔ امریکی امراء ، راک فیلر اور جارج سو روس اس خیال کے حامی ہیں کہ نیا نظام لایا جائے اور اسکے لیے جنگ کی جائے جبکہ روس اور چین زور دے رہے ہیں کہ پرانا نام ہی چلتا رہے کیونکہ اسکا متبادل نظام بن گیا ہے۔ جسکا مقصد ڈالر کی جگہ اور ایک نئی کرنسی کو تجارتی لین دین کے لئے معرض وجود مین لانا ہے۔ یورو ایک کرنسی ہو سکتی تھی جو اس سلسلے میں متبادل کے طور پر استعمال کی جاسکتی تھی مگر امریکہ نے پورے یورپ کو اپنے شکنجہ میں جکڑا ہوا ہے۔ وہ یورپ کو روس سے ڈرا رہا ہے پھر یورپ کو متحد بھی نہیں ہونے دے رہا ہے ، یورو کرنسی کو نقصان پہنچانے میں لگا ہوا ہے۔

دوسری طرف چین اور روس نے معاشی طور پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مقابلے میں برکس اور ایشیائی ترقیاتی بینک بنا لئے ہیں۔ جو امریکی معاشی نظام کو چیلنج کر رہے ہیںَ اس کے ڈالر کو فی الحال چین نے قبول کر رکھا ہے اور بڑی تعداد میں سونا اور ڈالر کا ذخیرہ کر لیا ہے۔ اس نے اسپرٹیلے اور پیراسیل کے جزائر پر اپنی ملکیت کا دعوی کر دیا ہے، یہ جزائر جو مشرق بعید میں ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور معدنی دولت کے ساتھ ساتھ دنیا کی تجارتی گزرگاہ ہیں۔ پھر چین ایک جزیرے پر مصنوعی بحری اڈہ بنا رہا ہے۔ جسکو امریکہ نے چیلنج کر دیا ہے مگر چین نے امریکہ کے چیلنج کو رد کرتے ہوئے اس کو خطے سے باہر کی طاقت قرار دیا ہے۔ امریکہ نے چین کیخلاف جاپان ، آسٹریلیا ، جنوبی کوریا اور بھارت کا محاذ بنا کر چین کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ بھارت نے اس محاذ میں تو شمولیت اختیار نہیں کی البتہ امریکہ سے دس سالہ دفاعی معاہدہ کر لیا ہے۔ جس کے یہ معنی ہی لئے جائیں گے کہ اس نے امریکہ کے اس اتحاد میں اپنے آپ کو شامل کر لیا ہے۔ اسکے بعد اس نے پاکستان کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان اور چین آپس میں پہلے سے جڑے ہوئے ہیں اور پاکستان چین کو مشرقی وسطی اور یورپ تک پہنچنے کا سب سے کم فاصلے ، کم خطرے کا حامل اور آسان راستہ فراہم کر رہا ہے جو خنجراب سے گوادر جائے گا۔ یہاں بھارت نے کئی ممالک کے ساتھ مل کر دہشتگردی میں تیزی لانے کی کوشش شروع کر دی اور کھل کر پاکستان کو مشتعل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نے بنگلہ دیش جا کر انتہائی ہلکے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے عوام کو یاد دلایا کہ بھارتی فوج نے مکتی باہنی سے مل کر پاکستان کے خلاف جنگ لڑی تھی، اسکے ساتھ ساتھ انکے حکام کہہ رہے ہیں کہ چین پاکستان معاشی کاریڈور بننے نہیں دیں گے چاہے اس کیلئے انہیں امریکی داعش کے لشکر سے مدد ہی کیوں نہ لینا پڑے اور انہیں ایٹمی اسلحہ سے لیس ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس قسم کی بیان بازی صرف سستی شہرت حاصل کرنے اور علاقے کا بدمعاش بننے کی کوشش کی تو ضرور قرار دی جا سکتی ہے وگرنہ بھارت میں نہ اتنا دم خم ہے اور نہ ہی اس کی صلاحیت۔ اسکا سامان حرب پرانا اور اسکی مسلح افواج فی الحال لڑائی کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ بات انکے فوجی افسران کہہ رہے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ کوئی ایسا موقع پیدا کرے اور بھارت کو جدید ہتھیاروں سے لیس کر دے مگر امریکی ضرورت کے باوجود دوپہر کا کھانا تک نہیں کھلاتے اور بھارتیوں کو خوب نچوڑیں گے اور انکی دولت کی پوٹلی میں سوراخ کر دیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان تلوں میں تیل نہیں مگر کہنا یہ ہے کہ بھارت کے حکمران ، برصغیر اور خود اپنے عوام پر رحم کھائیں اور انہیں امریکی بالادستی کی جنگ کا ایندھن نہ بنائیں۔

برصغیر کو عالمی جنگ کی آگ میں نہ جھونکیں۔ امریکی اپنی بالادستی قائم رکھنے کیلئے عالمی جنگ کیلئے پر تول رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بطور ملٹر طاقت دنیا کا کوئی ملک یا دنیا کے سب ممالک مل کر بھی انکا مقابلہ نہیں کر سکتے ، وہ کسی کو دنیا کی متبادل قیادت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ چین اور روس کا یہ کہنا ہے کہ 1945ء کا نظام چلے، امریکی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی رہیں تو انکا برکس بینک جن میں برازیل ، روس ، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہے، بھی قائم رہے اور چین کا ایشیائی ترقیاتی بینک بھی موجود رہے۔ اس سلسلے میں چین اور روس نے ایک اور بڑی پیش رفت کرلی ہے۔ روس نے یورو ایشیائی معاشی یونین بنائی ہوئی ہے اور چین نے ایشیائی ترقیاتی بینک دونوں کے درمیان معاہدہ ہو گیا ہے کہ وہ مل کر عالمی معاملات میں حصہ لیں گے اور ایشیائی غریب ممالک کی مدد کریں گے۔ اس طرح چین نے یورپی یونین تک رسائی حاصل کر لی جبکہ امریکہ یورپی یونین تک کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے اور ہر اس ملک کے خلاف سازشیں کر رہا ہے جو امریکہ کے نظام سے نکلتا ہے جیسے ملائیشیا چین کے ساتھ جڑ گیا اور مشرق بعید کے ممالک کے چین کے خلاف امریکی اتحاد میں شامل نہیں ہوا تو ملائیشیا کے دو ہوائی جہاز گرا دیئے گئے، برازیل میں مداخلت کر کے وہاں گڑبڑ پھیلا رہا ہے، روس کو یوکرائن کے ذریعے ڈرا دبا اور پابندیاں لگا رہا ہے۔ پاکستان کو بھارت کے ذریعے خطرے میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے اور پاکستان مٰں دہشتگردی کو فروغ دے رہا ہے جس سے پاکستان کے ادارے بڑی سختی سے نمٹ رہے ہیں۔ بہر حال عالمی منظر نامہ خطرناک سے خطرناک تر ہوتا جا رہا ہے ، جنگ کے بادل ہیں کہ گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی