خوردنی تیل میں خودکفالت کے زریعے سالانہ ڈھائی ارب ڈالر کی بچت ممکن ہے


  • قیام پاکستان کے بعد تیرہ سال تک ملک خوردنی تیل کے معاملہ میں خود کفیل تھا 
  • کاشتکاروں کے استحصال نے خوردنی تیل کو پاکستان کی دوسری بڑی درآمد بنا دیا

کراچی (ویب ڈیسک)  پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان خوردنی تیل میں خودکفالت حاصل نہیں کر سکا ہے جسکے زریعے سالانہ ڈھائی ارب ڈالر کا زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد تیرہ سال تک ملک خوردنی تیل کے معاملہ میں خود کفیل تھا جسکے بعد درآمد شروع ہوئی اور اب مقامی تیل کی پیداوار کھپت کا ایک تہائی ہے جس نے خوردنی تیل کو پٹرولیم مصنوعات کے بعددوسری بڑی امپورٹ بنا دیا ہے جس میں سے نوے فیصد حصہ پام آئل کا ہے۔روغنی بیج کے کاشتکار آڑھتیوں کے رحم و کرم پر ہیں جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں گرنے سے ان کا استحصال کیا جاتا ہے جس وجہ سے انکی دلچسپی کم ہو رہی ہے۔ملک کو خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل بنانے کیلئے زیر کاشت رقبہ میں ترغیبات کے زریعے اضافہ کیا جا سکتا ہے جسکے لئے سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی سب سے مناسب ہے۔اسکے علاوہ معیاری بیجوں اور دیگر مداخل کی بروقت فراہمی اور انکی پیداوار کی مناسب قیمت میں فروخت، اس شعبہ میں ریسرچ،جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، سویا بین اور پام آئل پر امپورٹ ڈیوٹی میں اضافہ، آئل ملز کی استعداد بہتر بناناشامل ہیں۔ آئل ملز میں پسائی کے پرانے طریقوں کے استعمال سے سالانہ دو لاکھ ٹن بنولے کا تیل ضائع ہو جاتا ہے۔چاول کے بھوسہ میں پندرہ فیصد تیل ہوتا ہے۔دولاکھ ٹن چاول کے چوکر سے سالانہ تیس ہزار ٹن تیل کشید کیا جا سکتا ہے جبکہ آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کو با اختیار بنانے، امدادی قیمت کا تعین کرنے اور کاشتکاروں کو بلا سود قرضے دینے سے اس شعبہ کی ترقی یقینی ہو جائے گی۔پاکستان میں اس وقت ملکی ضرورت کاایک تہائی خوردنی تیل پیدا ہوتا ہے جبکہ باقی درآمد کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ہر فرد سالانہ12 تا 13 لیٹر خوردنی تیل استعمال کرتا ہے جسکی کھپت میں سالانہ3فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی تو سالانہ درآمدسوا دو ملین ٹن اور ڈیمانڈ سوا تین ملین ٹن سے بڑھ جائیگی جس سے امپورٹ بل مزید بڑھ جائے گا۔ سورج مکھی سے 40 سے48 فیصد تیل نکالا جا سکتا ہے جبکہ سرسوں سے 32 فیصداور کپاس کے بیج سے 10 سے 12 فیصدتیل کشید کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں نئی اور جدید ریفائنریاں لگانے کی ضرورت ہے جس سے پراسسنگ کی استعداد، کوکنگ آئل کی کوالٹی، حکومتی آمدنی اور روزگار میں بھی اضافہ ہو گااور اےک تخمےنے کے مطا بق اس کا روبا ر سے وا بستہ افرا د کی تعداد مےں 10لا کھ تک اضا فہ ممکن ہو گا۔جس سے اےک طر ف زر مبادلہ کی بچت ہو گی تو دو سری طر ف روز گا ر مےں اضا فہ سے ملک مےں خو شحا لی آئے گی۔ اور حکو مت پر نو کر ےا ں فر ا ہم کر نے کے حو الے سے دبا ﺅ مےں کمی ممکن ہوگی۔ 

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی