وہ جس کے قبضہء قدرت میں زمین و آسمان، وسعتِ افلاک میں پھیلی کائناتیں، ہوائیں، بحر و بر حتیٰ کہ زمین کی تہوں میں رینگنے والوں سے لے کر افلاک کی بلندیوں پر آباد فرشتوں تک سب ہیں۔ جو سب پر محیط ہے۔ جو اس کائنات کا مالک اور مختارِ کل ہے۔ جو واحد ہے اور اس کی عظمتوں، طاقتوں، قوتوں اور فیصلوں میں کوئی شریک نہیں۔ جو کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو فقط اتنا فرماتا ہے” کُن ” یعنی ہو جا اور وہ چیز ہو جاتی ہے۔ جو فاعلِ حقیقی ہے۔ اسے اپنے فیصلے نافذ کرنے، اپنے ارادے کی تکمیل اور اپنی تخلیق کو جنم دینے کے لیے کسی سہارے، کسی وسیلے، کسی واسطے کی حاجت نہیں۔ وہ مصور اور خالق ہے لیکن اپنی تخلیق کے لیے رنگوں، بُرش، کینوس کا محتاج نہیں۔ وہ صبح آسمان پر لمحہ بہ لمحہ بدلتی تصویریں دکھاتا ہے تو شام شفق کی رونمائی کرتا ہے۔ وہ جو اس دنیا ہی نہیں تمام دنیاؤں کے اقتدارِ اعلیٰ پر متمکن ہے اور اسے اس اقتدارِ اعلیٰ کے لیے کسی چند سو لوگوں کی اسمبلی کے آئین کی تصدیق کی ضرورت نہیں۔ وہ اس کائنات میں اپنی طاقت کے اظہار، اپنی قوت کی ہیبت اور اپنے فیصلوں کے نفاذ کے لیے بھی کسی انتظامی مشینری کا محتاج نہیں۔
البتہ وہ اپنے فیصلوں کے کچھ اصول ضرور بتاتا ہے۔ وہ اپنے خوش ہونے کے لیے اعمال بھی بتاتا ہے اور اپنی ناراضی کی وجوہات بھی کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس کے حکم سے لوگوں کو عزت میسر آتی ہے یا ذلت، بادشاہت عطا ہوتی ہے یا چھین لی جاتی ہے۔ لیکن مصیبت، بلا، آفت یا عذاب کے بارے میں تو اس نے دو ٹوک انداز میں وضاحت کرتے ہوئے، کھول کھول کر بیان کر دیا ” کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی جب تک اللہ کا اذن نہ ہو جائے” (التغابن11-)۔ کس قدر وضاحت سے اللہ نے دنیا میں انسانوں پر نازل ہونے والی مصیبتوں، آفتوں، پریشانیوں اور عذابوں کے بارے میں حتمی طور پر کہا، کہ یہ سب اسی کے اذن اور اسی کے حکم سے ہوتی ہیں۔ انسانوں پر مصیبتیں، آفتیں، پریشانیاں اور عذاب نازل کرنے کی بھی اللہ نے بار بار مصلحت بتائی ہے اور ساتھ یہ کلیہ اور قاعدہ بھی بتا دیا کہ ہم کبھی بڑی پریشانی، بڑی آفت، مصیبت یا بڑا عذاب اچانک نہیں بھیجتے، بلکہ اس سے پہلے چھوٹی پریشانی، آفت یا مصیبت سے خبردار کرتے ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں۔ “اور ہم ان کو بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزہ چکھائیں گے تا کہ وہ ہماری طرف لوٹ آئیں” (السجدہ21- )۔ مصیبتوں، پریشانیوں، بلاؤں اور آفتوں کی بھی دو اقسام بیان فرمائی گئیں۔
ایک وہ جو کسی انسان کو ذاتی طور پر ملتی ہیں۔ یہ اصلاح، تربیت اور وارننگ کا ایک ایسا قانون ہے جو مہربان اور کریم اللہ سبحان و تعالیٰ نے اپنایا ہے۔ یہ وہ کڑوی دوا ہے جس کے نتیجے میں اللہ انسانوں کی اصلاح چاہتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ بلاؤں، پریشانیوں، بیماریوں اور مصیبتوں کی اس دوا کے پینے اور صبر کرنے کے بیش بہا انعامات ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” مومن کو اگر کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ اس تکلیف کے بدلے اس کے گناہ جھاڑ دیتا ہے۔” ایک اور جگہ فرمایا۔ “قیامت کے دن جب بیماریوں اور مصیبتوں کے وجہ سے لوگوں کے گناہ کم ہونا شروع ہوں گے تو وہ خواہش کریں گے کہ کاش ہم زندگی میں کبھی صحت مند نہ ہوتے” ۔
یہ الگ بات ہے کہ جب بار بار کی تنبیہہ اور مصیبت سے وہ باز نہیں آتے تو پھر اللہ ایسے بدبخت لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے “اللہ ان سے ہنسی کرتا ہے اور انھیں مہلت دیے جاتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی اور شرارت میں بہکتے رہیں۔” (البقرہ15-) یہ انسانوں کے ساتھ اللہ کا بحثیت فرد معاملہ ہے۔ اس لیے کہ روزِ قیامت کسی گروہ، کسی امت، کسی خاندان، کسی برادری یا کسی قبیلے نے اللہ کے حضور بحثیت مجموعی یا اکٹھے پیش نہیں ہونا۔ اللہ نے کس قدر کھول کر بیان کیا ہے “اور سب قیامت کے دن اس کے سامنے اکیلے اکیلے حاضر ہوں گے” (مریم 15-)۔ ہر ایک کو دنیا میں علیحدہ حالات، ماحول اور حیثیت دی گئی، ہر کسی کا امتحان اور پرچہ علیحدہ ہے۔ ایک صالح باپ اور ماں کے گھر پیدا ہونے والے اور ایک طوائف کے ہاں جنم لینے والے کا نہ امتحان ایک جیسا اور نہ ہی ممتحن کی پوچھ گچھ ایک جیسی۔ اسی لیے مہربان رب اس کمرۂ امتحان میں آنے سے پہلے ہر شخص کو تنبیہ اور وارننگ کرتا ہے تا کہ انھیں اس سے ہدایت حاصل ہو اور وہ اللہ کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔
لیکن قوموں، گروہوں، قبیلوں اور امتوں کو سرکشی سے باز رکھنے کے لیے اللہ کا طریق کار تو وہی ہے کہ پہلے ایک چھوٹی آفت، چھوٹی بلا اور مصیبت سے تنبیہ کی جاتی ہے اور پھر اگر یہ قوم، گروہ، قبیلہ یا امت نہ سنبھلے تو اللہ کا غیظ وغضب ان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ لیکن قوموں کے معاملے میں وارننگ دیتے ہوئے اللہ ہر خاص و عام کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہے اور عذاب بھی ہر خاص و عام پر نازل کرتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے “اس فتنے اور وبال سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انھی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں گنہگار ہیں اور جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے (الانفال 25)۔ عموماً یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کا کیا قصور ہے جو اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہیں مگر اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔ اللہ دونوں جہانوں کا مالک ہے۔ یوں سمجھیں آپ کے گھر کے دو کمرے ہیں۔ آپ اپنی ایک قیمتی چیز اٹھا کر دوسرے کمرے میں رکھ دیتے ہیں تو آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ اس وارننگ کے دوران جو لوگ اللہ کے دوسرے جہان میں منتقل ہو جاتے ہیں، وہ اللہ کی دسترس میں ہی رہتے ہیں۔ البتہ وہاں ان کا معاملہ اس طرح ہو گا یعنی اکیلے اکیلے اور اپنے اعمال کے مطابق۔ لیکن دنیا میں اس کے غیظ و غضب کا شکار بستی کا ہر خاص و عام ہو جاتا ہے۔
اللہ کے اس دستورِ عذاب و آزمائش کو سامنے رکھیے اور پھر سوچیے کہ وہ حرم جہاں ایک مچھر کا مارنا بھی حرام ہے، وہاں تند و تیز ہوائیں چلتی ہیں، طوفان آتا ہے۔ وہ کرین جو انتہائی مضبوط تصور کیا جاتا ہے اور جس کے حادثے کا تصور ہی نہیں کیا جاتا۔ صرف چند حادثات ہیں جو موجودہ تاریخ میں نمایاں ہیں جن میں 2008ء کا نیویارک اور 2015ء کا ہالینڈ کا واقعہ۔ ایسا کرین آسمان کی بلندیوں سے حرم میں عبادت میں مصروف لوگوں پر گر پڑتا ہے۔ کیا یہ صرف حادثہ ہے جس کی تحقیقات ہونا چاہیے تھیں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ خانہ کعبہ کے مطعاف اور اردگرد، دنیا کی ہر زبان میں علمائے کرام لوگوں کو قرآن کا درس دے رہے ہوتے ہیں۔ کسی ایک عالم نے بھی اس طرح اشارہ تک نہ کیا کہ یہ اللہ کی جانب سے ایک وارننگ، ایک تنبیہہ ہو سکتی ہے۔ آؤ ہم سب ملکر اس پوری امت کے لیے اجتماعی استغفار کر لیں۔ کس قدر بہتر وقت ہے کہ پوری امت سے لوگ یہاں جمع ہیں، یہ اگر اللہ کے حضور گڑگڑا کر اپنے لیے نہیں بلکہ پوری امت کے لیے استغفار کریں تو شاید اللہ رحم فرما دے۔ لیکن یہ توفیق بھی تو صرف میرا اللہ ہی دیتا ہے۔ ہم بحثیت امت جو کچھ کر رہے ہیں، کیا ہم اللہ کی ناراضگی کو دعوت نہیں دے رہے۔
ستاون اسلامی ممالک میں سود کے نظام کو روا رکھتے ہوئے اللہ سے جنگ جاری ہے۔ مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے کا خون جتنا آج بہہ رہا ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ بشارالاسد کے قتل عام کی حمایت کرنے والے بھی اس امت میں سے ہیں اور داعش کے حمایتی بھی۔ نورالمالکی نے جو لاکھوں لوگ قتل کیے ان کا دفاع کرنے والے بھی ہیں اور جبتہ النصرہ کی حمایت والے بھی۔ قاتل، چور، ڈاکو، سودخور اور رزقِ حرام سے پیٹوں کا جہنم بھرنے والے حرم میں پہنچ جائیں تو کیا وہ رحمتیں سمیٹتے ہیں؟۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “ایک شخص خانہ کعبہ سے لپٹ لپٹ کو رو رو کر دعائیں کر رہا تھا، لیکن اس کی دعائیں قبول نہیں ہونگی۔ اس لیے کہ اس نے جو لباس پہنا ہے وہ رزقِ حرام کا، جو کھانا اس نے کھایا وہ رزقِ حرام کا۔ اس کے جسم کی پرورش حرام سے ہوئی، ایسے شخص کی دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں۔” کاش کوئی حکمران، حرم میں موجود کوئی عالمِ دین اس کرین حادثے کے بعد لوگوں کو اجتماعی استغفار کے لیے پکارتا۔ کاش ہم پر رحم کیا جاتا، ہم اللہ کو منا لیتے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے ایک خوف نے آن گھیرا ہے۔ قیامت کے نزدیک جب بڑی جنگ یعنی ملحمتہ الکبریٰ شروع ہونا ہے تو میرے آقا ﷺ کو بتائی گئی نشانیوں کے مطابق اس کا آغاز حج کے دوران قتلِ عام سے ہو گا۔ خوف ہے کہ چھوٹا عذاب تو ہم نے دیکھ لیا، کہیں ہم بڑے عذاب کا شکار تو نہیں ہونے والے۔
بشکریہ ایکسپریس
ایک تبصرہ شائع کریں