یقین تُو نے دیا ، اعتبار تُو نے دیا
نظر کو نور، دلوں کو قرار تُو نے دیا
ترے نثار اے ملت کے قائدِ اعظم !
نظر کو نور، دلوں کو قرار تُو نے دیا
جو کھو چکے، ہمیں وہ وقار تُو نے دیا
نشانِ منزلِ مقصود کر دیا روشن
نقوشِ رہ گزر کو نکھار تُو نے دیا
ورائے عقل تھیں شیرازہ بندیاں تیری
جفا گروں کو وفا کا شعور تُو نے دیا
شعورِ ذات کو جہدِ بقا کی لذت دی
بھڑک اٹھا جو عمل کا شرار تُو نے دیا
چمن میں یورشِ صر صر سے جو پریشاں تھے
گلوں کو مژدہء عہدِ بہار تُو نے دیا
نمو پذیر تھے گو شاخسار برسوں سے
ہوائے شوق غمِ برگ و بار تُو نے دیا
بھٹک رہے تھے جو مدت سے دشتِ غربت میں
سبک سروں کو مقدس دیار تُو نے دیا
ہزار تلخ جراحت ملے ، نہ بھولیں گے
وہ جیسے خاک نشینوں کو پیار تُو نے دیا
کہاں وہ طرزِ قیادت، طریقِ راہبری
جو ہر قدم پہ بصد افتخار تُو نے دیا !
اختر ضیائی
ایک تبصرہ شائع کریں