دیگر اہداف کی طرح اس پرنظر الثانی ہو گی، جواز پیش کئے جائینگے، اصلاحات نہ ہونے تک معیشت مستحکم بنیادوں پر استورا نہیں ہو گی
اسلام آباد (اردو وائس نیوز) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے 5.5 فیصد شرح نمو کا حدف تصوراتی ہے جس کا حصول موجودہ حالات میں ناممکن ہے۔چند ماہ بعدایف بی آر ، سرمایہ کاری اوربرامدات کے اہداف کی طرح اس پر بھی نظر الثانی کر کے اسے کم کیا جائے گا جسکے لئے اکنامک مینیجرز کو مختلف جواز پیش کرینگے۔موجودہ حکومت کی کامیابیوں میں شرح نمو ، زرمبادلہ کے ذخائرکا بہتر ہونااور افراط زر وکرنٹ اکاﺅنٹ کے خسارے میں کمی شامل ہیں جبکہ بڑی ناکامیوں میں ٹیکس بیس میں اضافہ میں ناکامی اوربھاری نقصانات کا سبب بننے والی کارپوریشنوں میں اصلاحات کا عمل شروع نہ ہونا شامل ہیں۔
ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ مینوفیکچرنگ میں اضافہ خوش آئند ہے جس کی وجوہات میں فرٹیلائیزر پلانٹس کو اضافی گیس دینا، خام مال کی کم قیمتیں، ملک میں تعمیرات کے شعبہ کی بحالی اور بینکوں کی جانب سے قرضے پر گاڑیاں فراہم کرنے کے رجحان میں اضافہ ہے۔دوسری طرف برامدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری گر رہی ہے جبکہ زراعت کی صورتحال سب کے سامنے ہے جس میں قابل ذکر کپاس کی فصل کی تباہی ہے جس سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔تینوں سٹاک ایکسچینجوں کے انضمام کے جو فوائد بیان کئے گئے تھے معاملہ اس سے الٹ ہوتا نظر آ رہا ہے جس میں کچھ کردار عالمی صورتحال کا بھی ہے جس وجہ سے ابھرتی منڈیوں سے 735 ارب ڈالرکا سرمایہ نکال لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر مغل نے کہا کہ ملکی و غیر ملکی قرضوں پر بڑھتا ہوا انحصار تشویشناک ہے اور ایک اندازہ کے مطابق پانچ سال بعدملکی معیشت ان کی واپسی کے قابل نہیں رہے گی جس کے بعد ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے مغربی قوتوں کی غلامی کا طوق ڈالنا بڑے گا۔ان تمام مسائل کا حل اصلاحات میں مضمر ہے جس پر عمل درامد نہ ہونے تک معیشت کبھی مستحکم بنیادوں پر استورا نہیں ہو گی۔
ایک تبصرہ شائع کریں