مائیسور، بھارت (رپورٹ ابوالحسنین اُرْدُوْ وائس آف پاکستان19 اپریل 2016) آشیتہ کا موجودہ نام شائستہ ہوگیا ہے۔ کیونکہ اس نے کام ہی ایسا کیا ہے۔ ہندو لڑکی آشیتہ ، ہندو انتہا پسندوں کی تمام تر شدید ترین دھمکیوں کی پروا نہ کی، اور نہ اسے گھر والوں کی طرف سے لا تعلقی کی پروا ہوئی۔ شدید مخالفت اور جان لینے کی دھمکیوں کے باوجود آشیتہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچپن کی محبت پر جان، مذہب اور خاندان قربان کردیگی۔ جی ہاں آشیتہ نے ایسا ہی کیا ، 17 اپریل 2016 کو اپنے بچپن کے دوست شکیل سے شادی کرلی۔
لڑکی اور لڑکے کے خاندان والوں نے دونوں کی جرات اور خلوص محبت پر شاباش دی۔ میسور کے بانی منتپ میں واقع شادی ہال میں پولیس کی سخت سیکیوریٹی میں دونوں کی شادی ہوگئی۔ دونوں خاندانوں کا اس شادی پر تاثرات مثبت تھے، ان کا کہنا تھا کہ ’’ یہ محض ایک شادی نہیں بلکہ دو کمیونیٹیز کا ملاپ ہے۔‘‘ ۔ دونوں خاندان والے اپنے اپنے روایتی لباسوں میں ملبوس شادی شدہ جوڑے کو دعائوں کے ساتھ رخصت کرنے موجود تھے ۔ دلہن بھی اسلامی لباس میں ملبوس تھی۔ مختلف نوع کے کھانے پکائے گئے تھے۔
شائستہ کے والد ڈاکٹر نریندر بابو نے کہا کہ وہ بیٹی کی شادی کے لئے بہت خوش ہیں۔ اس اہم شادی کی تقریب میں نامور شعرا، اور لکھاری بشمول کے ایس بھگوان، گووری لنکش، سماجی رہنما ویمالا اور دیگر شخصیات موجود تھے۔ 2 ہزار سے زائد افراد تقریب میں شریک ہوئے۔
شائشتہ لندن سے ہیومن ریسورس میں ایم بی اے جبکہ شکیل بھارت ہی کے گاندھی نگر سے مارکیٹنگ میں ایم بی اے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں