ٹیکس چور سرمایہ دار اشرافیہ کی منطقیں دنیا بھر میں ایک جیسی ہیں۔ عوام کا خون چوسنے والا یہ طبقہ سیاسی اشرافیہ کے تعاون اور آشیرباد سے اپنی اس لوٹی ہوئی دولت کو جہاں محفوظ خیال کرتا ہے رکھتا ہے اور اپنی اس ٹیکس چوری‘ سرمائے کو ملک سے باہر نکالنا‘ کاروبار کو کسی دوسرے سازگار ماحول والے ملک میں منتقل کرنا‘ ایسے اقدامات کا ذمے دار وہ حکومتوں‘ ملکی حالات‘ عدم تحفظ اور سرکاری کرپشن کو گردانتا ہے۔
اس کی یہ سوچ اس کے خریدے ہوئے میڈیا میں ایسے پیش کی جاتی ہے جیسے یہ تو اس ملک میں اپنا سرمایہ رکھنا چاہتا تھا‘ یہ تو اس ملک کا خیرخواہ تھا لیکن حکمرانوں‘ بھتہ خوروں‘ سیاسی مخالفوں اور خراب امن و امان نے اس کا جینا دو بھر کر دیا‘ وہ کمانا اور کما کر خدمت کرنا چاہتا ہے‘ لیکن وہاں چلا گیا جہاں وہ سکون سے کاروبار کر سکے۔
ایک زمانہ تھا جب میڈیا ہاوسزز کا رواج نہ تھا۔ ایک کارکن صحافی یا لکھاری چند پیسے اکٹھا کرتا‘ ایک دو ساتھیوں کو ملاتا‘ مختصر سا عملہ جن میں زیادہ تر عملی صحافی اور کاتب شامل ہوتے‘ اور پھر اپنی تحریر‘ اپنے بے لاگ تجزیے اور جرأت مندانہ صحافت کی بنیاد پر اس کا اخبار عوام میں مقبول ہو جاتا۔ ہماری تاریخ ایسے عظیم دانشوروں‘ ادیبوں اور صحافیوں کی امین ہے جو خود اخبار نکالتے تھے اور ان کا کوئی مالک‘ سربراہ یا فنانسر نہیں تھا۔ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا ظفر علی خان‘ ابوالکلام آزاد‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ حمید نظامی اور اس قبیل کے کئی چراغ راہ اور چراغ منزل‘ ہر نظریے کا اپنا ایک اخبار ہوتا تھا۔ ہر تحریک کا ایک نمایندہ تھا۔
کمیونسٹ نظریات ہوں یا اسلامی‘ خاکسار تحریک ہو یا احرار‘ جماعت اسلامی ہو یا سرخ پوش‘ سب کے ترجمان لوگوں کو اپنے نظریات فراہم کرتے تھے۔ لیکن ہم آج جو ’’آزاد میڈیا‘‘ کے دور میں زندہ ہیں وہاں نظریہ تو کہیں دفن کر دیا گیا ہے اور اب میڈیا کی ملکیت‘ ادیب‘ دانشور یا صحافی کے ہاتھ میں نہیں بلکہ کارپوریٹ سرمایہ دار کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا پوری دنیا میں ہے۔ پاکستان کا کوئی استثناء نہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے کنسورشیم بنے ہوئے ہیں جو میڈیا ہاؤس چلاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس کو ہم آزاد میڈیا کہتے ہیں یہ آزاد نہیں بلکہ لکھنے والوں کی آراء‘ ان کے تعصب اور اکثر اخبار کی اس پالیسی پر مشتمل ہوتا ہے جو فنانسر بتاتا ہے۔
آج کے دور کی سب سے اہم دریافت ’’رائے کی صحافت‘‘ (Opinionated Journalism) ہے اور رائے کی صحافت کا سب سے اہم ہتھیار کالم ہیں جو آج دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ یہ کالم یوں تو آزاد اور خود مختار نظر آتے ہیں لیکن جہاں کہیں کارپوریٹ فنانسر کا مفاد یا اس کی پالیسی مقابل میں آ جائے تو پھر دو راستے ہوتے ہیں‘ ایک یہ کہ خاموشی اختیار کی جائے اور دوسرا کھل کر اس کے حق میں لکھا جائے۔ سرمایہ کاری ‘ آزادانہ تجارت‘ اور جدید سودی معاشی نظام کی حمایت موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی بقاء کا مسئلہ ہے۔
اسی لیے جہاں کہیں کوئی سرمایہ دار اپنی سرمائے کی سلطنت کو بچانے کے لیے ریاست‘ حکومت ا ور عوام کو دھوکا دیتا ہے‘ ان کا مجرم ہوتا ہے تو ہم ریاست‘ حکومت اور عوام کو برا بھلا کہتے ہیں کہ دیکھو وہ تو بھلا آدمی تھا‘ یہاں کاروبار کر رہا تھا‘ لوگوں کو نوکریاں دے رہا تھا‘ ٹیکس دیتا تھا‘ تم نے اس کو اتنا تنگ کیا کہ وہ یہاں سے بھاگ گیا۔ نواز شریف اور اس کے خاندان کے موجودہ پانامہ لیک سکینڈل کے بعد یہ منطق اور دلیل بہت عام کر دی گئی۔ خود وزیراعظم نے اپنی حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے خاندان کے کاروبار کی مظلوم داستان پیش کی اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ ہم پر جینا تنگ کر دیا گیا تھا۔ اس لیے ہمارے خاندان نے کاروبار بیرون ملک شروع کیا۔ کیا کمال کی بات ہے۔
آپ کو سیاست کرنے کے لیے‘ پارٹی بنانے‘ جلسے کرنے‘ الیکشن لڑنے‘ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بننے کے لیے تو یہ ملک بہت اچھا لگتا ہے‘ یہاں بھاگ بھاگ آتے ہو‘ ایئرپورٹ سے واپس بھیجے جاؤ‘ پھر بھی آتے ہو‘ اقتدار کے لیے آپ کو یہ ملک خطرناک نہیں لگتا لیکن صرف کاروبار کرنے کے لیے یہ ملک بدترین ہے۔ اگر آپ کو جلا وطن کیا گیا تھا‘ حالانکہ آپ جلا وطن اپنی مرضی سے ہوئے ۔
آپ اس ملک پر حکومت کرنے کے لیے تو واپس آ گئے لیکن اپنے ساتھ جلا وطن ہونے والے کاروبار کو وہیں چھوڑ آئے۔ کیا آپ کے اقتدار کی واپسی کے سفر میں کاروبار ساتھ واپس نہیں آ سکتا تھا۔ کیوں واپس آتا۔ اس ملک کو چلانے کے لیے بیس کروڑ لوگوں کا خون پسینہ جو موجود ہے‘ آپ کے بیٹوں کے سرمائے کی تو پانامہ میں ضرورت یا پھر برطانیہ میں۔
بحیثیت وزیراعظم اپنے خطاب میں مظلومیت کی کہانی سنائی گئی کاش کوئی ان سے ا ن نوازشات اور مہربانیوں کا ذکر بھی کر دیتا جو اس ملک‘ اس کی حکومت اور خود ان کے اقتدار نے ا ن کے کاروبار پر کیں اور ان کا کاروبار ایسے پھلا پھولا جیسے بانس کے درخت راتوں رات کئی کئی فٹ بلند ہو جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں صرف اتفاق فونڈری کو قومی ملکیت میں نہیں لیا تھا‘ بلکہ ہزاروں پاکستانیوں کی فیکٹریاں‘ سرکاری ملکیت میں چلی گئی تھیں۔ برسراقتدار آتے ہی بھٹو نے ہیوی انجینئرنگ‘ ہیوی الیکٹریکل کمپنیاں‘ گیس اور آئل ریفائنریاں‘ اور آئرن اور اسٹیل کے کارخانے قومیائے یہ 1971ء میں ہوا۔ دوسری بار یکم جنوری 1974ء میں عام آدمی کی بچت پر قبضے کے لیے تمام بینک‘ انشورنس کمپنیاں‘ شپنگ کمپنیاں اور پٹرولیم کمپنیاں قومیائی گئیں۔ تیسرے مرحلے یعنی یکم جولائی 1976ء میں دو ہزار سے زیادہ کپڑے کے کارخانے اور چاول کے شیلر قبضے میں لیے گئے۔
ان کے مالکان‘ سب کے سب بھی اسی ملک کے شہری تھے۔ طویل عرصے تک ان کی فیکٹریاں سرکار کے کارندے چلاتے رہے اور پھر ان کو مارکیٹ میں ’’اوپن ٹینڈر‘‘ کے ذریعے نجی ملکیت میں دیا گیا۔ یہ الگ بات کے اونے پونے دام فروخت کیا گیا۔ لیکن وزیراعظم کی نظر میں مظلوم ’’شریف خاندان‘‘ وہ ان منظور نظر تین خوش نصیب اور خوش بخت لوگوں میں شامل تھا جن کی قومیائی گئی فیکٹریاں ضیاء الحق نے انھیں جوں کی توں واپس کر دیں۔ یہ تین تھیں۔1- اتفاق فونڈری‘ 2- نوشہرہ انجینئر نگ اور 3- ہلال گھی مل ملتان۔ پھر اس کے بعد نواز شریف پر جنرل ضیاء الحق کی نگاہ انتخاب پڑی اور وہ پنجاب کے وزیر خزانہ ہو گئے۔
اس وقت تک اتفاق گروپ کی پانچ کمپنیاں تھیں۔ اس کے بعد اس ’’مظلوم ‘‘ خاندان پر ا للہ کا بیش بہا فضل کرم شروع ہوا اور صرف چند سالوں میں ان کی تعداد 31 ہو گئی۔ 2 مارچ 1994ء کو خالد سراج نے جو ابتدائی پانچ کمپنیوں میں شامل تھے اپنی پریس کانفرنس میں ان کمپنیوں کی فہرست پیش کی جسے ایچ یو بیگ کمیٹی نے تصدیق کے ساتھ رپورٹ میں شامل کیا۔ اس دوران ان ہزاروں لوگوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا جن کے کاروبار قومیائے گئے اور ان کی اکثریت آج بھی اسی ملک میں کاروبار کر رہی ہے۔ لیکن مظلوم شریف خاندان پانامہ چلا گیا۔
کیا سرمائے کو ٹیکس چوری یا منافع خوری کی وجہ سے کسی دوسرے ملک میں منتقل کرنا‘ آف شور کمپنیاں بنانا اور کالے دھن کو سفید کرنے کا تعلق ملکی حالات سے ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں۔ امریکا سے زیادہ مستحکم اور کارپوریٹ سرمائے کے لیے محفوظ ملک اور کوئی نہیں لیکن امریکا دنیا کا پہلے نمبر پر ملک ہے جس کے ٹیکس چوروں نے ٹیکس جسٹس نیٹ ورک کی 2012ء رپورٹ کے مطابق 32 ہزار ارب ڈالر آف شور کمپنیوں میں رکھا ہوا ہے۔ یہ سرمایہ اگر امریکا میں ہوتا تو سالانہ 200 ارب ڈالر کا ٹیکس اکٹھا ہوتا۔ امریکا کی سالانہ جی ڈی پی 16 ہزار ارب ڈالر ہے اور اس سے دگنا سرمایہ باہر لے جایا گیا ہے۔ کیا وہاں بھی کوئی پرویز مشرف آ گیا تھا‘ یا کوئی ذوالفقار علی بھٹو کارخانے قومی ملکیت میں لینے لگا تھا۔
یورپ سے سرمایہ کار اپنی فیکٹریاں اٹھا کر پولینڈ‘ چین‘ ملائیشیا‘ تائیوان‘ انڈونیشیا‘ کینیا لے جاتے ہیں۔ برمنگھم اور مانچسٹر جو صنعتی شہر ہوتے تھے آج ویران ہو چکے‘ ملوں کی جگہ گھر بن گئے‘ کیا وہاں بھی بھتہ خور‘ دہشت گرد ان کو تنگ کرتے تھے۔ نہیں سرمایہ دار منافع کا دیوانہ ہوتا ہے۔ اسے چین میں مزدور ایک ڈالر میں ملے گا تو وہ انگلینڈ میں دس ڈالر میں کیوں لے گا۔ کارپوریٹ سرمایہ کار کی نہ کوئی قوم ہوتی ہے‘ نہ علاقہ‘ نہ وطن سے کوئی محبت ہوتی ہے اور نہ کوئی اخلاقیات۔ اس کا مذہب سرمایہ اور اس کا وطن کاروباری سلطنت ہوتی ہے۔ جہاں اس کا مذہب آگے بڑھے اور اس کی سلطنت کو وسعت ملے‘ وہاں جا کر آباد ہو جاتا ہے۔ افلاطون نے درست کہا تھا۔ ’’تباہ ہو گئیں وہ قومیں جن پر تاجر یا جرنیل حکومت کرنے لگیں۔‘‘ ہم کسی قدر بدقسمت ہیں۔ ہم پر دونوں ہی باری باری حکومت کرتے ہیں۔
بشکریہ ایکسپریس : اشاعت 28 اپریل 2016
ایک تبصرہ شائع کریں