نوبل انعام یافتہ پاکستانی لڑکی #ملالہ یوسفزئی کروڑ پتیوں میں شامل، 4 سال میں کروڑں روپے کمائے

لندن (تحریر ابوالحسنین : ٹائمز آف چترال 30 جون 2016 ) ملالہ یوسفزئی کا خاندان بھی کروڑ پتیوں میں شامل ہوگیا۔ یہ سفر انہوں نے محض 4 چال کے مختصر عرصے میں طے کیا، جسے طے کرنے کے لئے لوگوں کی آدھی زندگی کے برابر وقت لگ جاتا ہے۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے سوات سے تعلق رکھنے والی ملالہ تعلیم کے میدان خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے لئے سرگرم تھی۔ اور لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے انہوں نے کئی مقامی اخبارات و رسائل میں مقالے لکھے ، جس میں طالبان کی تعلیم مخالف سرگرمیوں پر شدید تنقید کی تھی۔ اکتوبر 2012 میں طالبان نے ملالہ کی سکول بس میں گھس کر ملالہ پر اندھا دھند فائرنگ کردی، اور وہ شدید زخمی ہوگئی۔ صحت یابی کے بعد ملالہ نے خاتون صحافی کرسٹینا لمب سے ساتھ ملکر ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’ آئی ایم ملالہ ‘‘ رکھا۔ کتاب اکتوبر 2013 میں شائع ہوئی۔ 



ملالہ اور کرسٹینا کے مابین یہ 2 ملین پاونڈز کی ڈیل تھی۔ اور کتاب کی 1.8 ملین کاپیز دنیا بھر میں فروخت ہوئیں اور یوں ملالہ نے کتاب کی فروخت پر 3 ملین امریکی ڈالر کا منافع کمایا۔ 

ملالہ یوسفزئی کو سال 2014 میں 18 سال کی عمر میں امن کا عالمی انعام ’’نوبل پیس پرائز‘‘ سے نوازا گیا، جس کے بعد ملالہ کی قسمت اور جاگنی شروع ہوئی۔ اور ملالہ دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروع کے حوالے سے ایک سرگرم عمل شخصیت کے طور پر جانی اور مانی گئی۔ اور یوں ہر تقریر کے لئے ملالہ یوسفزئی ایک لکھ باون ہزار ڈالر(152000) لینے لگیں۔ انسٹیٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز کے مطابق ملالہ یوسفزئی نوبل انعام یافتہ گان میں سے سب سے زیادہ کمانے والی شخصیت ہے۔

ملالہ یوسفزئی کے والدین سالارزئی نامی ایک کمپنی میں شیئر ہولڈر ہیں، یہ کمپنی ملالہ کی کہانی کے تحفظ کا کام کرتی ہے۔ کمپنی نے سال 2015 میں 2 ملین ڈالر سے زائد آمدن کمائی، سال 2014 میں کمپنی نے اس سے 35 فیصد کم آمدنی کمائی تھی۔ سالارزئی لندن بیسڈ کمپنی ہے۔ یہ کمپنی ملالہ فنڈ کے لئے کام کرتی ہے۔ ملالہ فنڈ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروع کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ 

ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسفزئی بھی طالبان کی مزاحمت کے اپنے تجربات پر لیکچرز دیتے ہیں۔ ملالہ کے خاندان نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہےکہ انہوں نے ملالہ کی کتاب کی اشاعت سے لیکر اب تک 1 ملین ڈالر سے زیادہ چیریٹیز کی صورت میں دے چکے ہیں، یہ عطیات انہوں نے بشمول پاکستان دنیا بھر میں چلنے والے تعلیمی منصوبوں کو دیے ہیں۔


0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی