اوریا مقبول جان (یہ تحریر ایک بڑے اشاعتی ادارے نے چھاپنے سے انکار کردیا تھا)
انکم ٹیکس کے گوشواروں کی دنیا بھی عجیب ہے۔ ہر سال وکیل اس ملک کے سرمایہ داروں کا ٹیکس بچانے کے لیے ایسے ایسے داؤ پیچ اور ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں کہ آدمی حیران اور ششدر رہ جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک گوشوارے کے بارے میں آج کے ایک اخبار میں ایک مشہور آڈٹ فرم کے حوالے سے یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ وزیراعظم پاکستان اور ان کی صاحبزادی مریم نوازشریف کے ٹیکس گوشواروں میں کسی بھی قسم کی کوئی لاقانونیت نہیں پائی جاتی اور یہ عین انکم ٹیکس قانون کے مطابق ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی پرائیویٹ آڈٹ کمپنی خواہ وہ کس قدر قابل اعتماد کیوں نہ ہو، کی کوئی رپورٹ اس وقت تک قانون میں اعتماد کا درجہ نہیں رکھتی جب تک اس کام پر مامور سرکاری محکمہ آڈیٹر جنرل یا انکم ٹیکس آڈٹ کے افسران اس کی تصدیق نہ کریں۔ اس لیے کہ تمام آڈٹ فرمیں مختلف کمپنیوں کے آڈٹ اس لیے کرتی ہیں کہ ان کے نامکمل کاغذات کو مکمل کرائیں، اور ان کی خامیاں دور کریں۔ ان کمپنیوں کا خرچہ وہ سرمایہ دار خود ادا کرتے ہیں البتہ وہ رپورٹ قابل اعتماد سمجھی جاتی ہے جو کسی عدالت یا حکومتی محکمہ کی جانب سے انکوائری کےلیے تھرڈ پارٹی آڈٹ کے طور پر پیش کی جائے۔ اس لیے پہلی بات تو یہ کہ آڈٹ رپورٹ کی حیثیت ایک خبر سے زیادہ نہیں، جو ایک اخبار میں شہ سرخی کے طور پر شائع ہوئی۔
آئیں اب دیکھتے ہیں کہ میاں محمد نوازشریف کے 2011ء میں انکم ٹیکس کے گوشواروں میں کیا تھا جس کی پانچ سال بعد ایک پرائیویٹ آڈٹ فرم سے تصدیق کروائی گئی۔ اس گوشوارے میں ملک کے غریب و بےنوا سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کا نہ کوئی ذاتی کاروبار ہے اور نہ ہی آمدن کا کوئی ذریعہ۔ وہ لندن سے اپنے بیٹے (جن کا نام درج نہیں) سے 1،29،836،905 تقریبا تیرہ کروڑ روپے منگواتے ہیں، جن میں سے وہ اپنی زیرکفالت مریم نواز کو 31،700،1080 یعنی تین کروڑ روپے گفٹ کر دیتے ہیں اور اپنے ایک بیٹے حسن نواز کو بھی 19،459440 یعنی تقریبا دو کروڑ روپے عنایت کر دیتے ہیں۔ میں نے مریم نواز کو زیرکفالت اس لیے لکھا ہے کیونکہ اس انکم ٹیکس کے گوشوارے میں ایک خانہ ہے جس میں یہ سوال پوچھا گیا ہے (اثاثے جو آپ کی بیوی، نابالغ بچوں یا دیگر زیرکفالت افراد کے نام پر ہیں)، اس خانے میں مریم نواز کے نام پر ایک زرعی جائیداد دکھائی گئی ہے جس کا کوئی نام مقام نہیں ہے، لیکن اس کی مالیت 24،851،526 روپے یعنی تقریبا ڈھائی کروڑ روپے بتائی گئی۔
ایک سال کے بعد خیال آیا کہ یہ زرعی زمین جو مریم نواز کے نام پر ہے، اس کا علیحدہ گوشوارہ جمع کروایا جائے، کہ کہیں لوگ یہ سوال نہ کرنے لگیں کہ باقی دو بچوں کو کوئی جائیداد نہیں دی، کس قدر ناانصاف باپ ہے۔ یوں مریم نواز نے 2012ء میں پہلی دفعہ نیشنل انکم ٹیکس نمبر حاصل کیا اور اپنے باپ سے جو تین کروڑ روپے گفٹ کے طور پر لیے تھے، اس میں سے زمین کی قیمت 24،851،526 روپے واپس کر دیے، گویا باپ کے دیے گئے پیسوں کی صورت تحفے کو زمین کے طور پر بدل دیا۔ ان سارے تحفوں کے بارے میں اس وقت ایک بےچاری اسسٹنٹ انکم ٹیکس کمشنر نے نوٹس جاری کیا کہ یہ ساری دولت جو بیٹے سے باپ اور پھر باپ سے بیٹے اور بیٹی کو دی گئی ہے، اگر یہ کراس چیک کی صورت نہیں ہے تو یہ گفٹ یا تحفہ شمار نہیں ہوگی بلکہ یہ آمدنی شمار ہوگی جس پر آپ کو ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس گستاخی پر اس خاتون کو جو سزا بھگتنا پڑی، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
یہ ہے اس گوشوارے کی مختصر سی کہانی جس کو ایک عام سی سمجھ بوجھ والا آدمی بھی اگر پڑھے تو اسے حیرت و استعجاب کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ وہ میاں محمد نواز شریف جس کے چوہدری شوگر مل میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کے حصص ہیں، رمضان شوگر ملز اور حدیبیہ پیپرز میں حصے ہیں، وہ پہلے پیسے منگواتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لندن کے کسی کاروبار کا منافع حاصل کر رہا ہے، اور پھر یہ ”غریب آدمی“ اس میں سے بیٹے بیٹی کو کروڑوں روپے گفٹ کر دیتا ہے، اور اسی سے بیٹی باپ کو زمین کے پیسے ادا کرتی ہے، مگر کیونکہ انکم ٹیکس قوانین کے مطابق کراس چیک کے بغیر رقم دراصل آمدن شمار ہوتی ہے، (یہ وہی زرعی اراضی ہے جس کا انکار مریم نواز اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کر چکی ہیں) اس لیے سوال اٹھتا ہے مگر جواب کے بجائے بےچاری اسسٹنٹ کمشنر پر نزلہ گرا دیا جاتا ہے. یہ میاں محمد نوازشریف صاحب جن کا کوئی ذریعہ آمدن اس قابل نہ تھا کہ گزارا ہو سکے، اور وہ اپنے بیٹے سے پیسے منگوانے پر مجبور تھے، وہ اس شریف خاندان کے چشم و چراغ ہیں جس کے خلاف 16مارچ 1999ء کو لندن کی ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ صادر کیا کہ حدیبیہ پیپرز، میاں شہباز شریف، میاں محمد شریف اور میاں عباس شریف کے خلاف التوفیق انوسٹمنٹ فنڈز نے جو قرضہ واپس لینے کا دعوی کیا ہے، وہ مبنی برحقیقت ہے اور رقم ادا کی جائے۔ 5 نومبر 1999ء تک قرضہ ادا نہ کیا گیا تو عدالت نے شریف خاندان کے چار فلیٹ قرضے کے بدلے میں اٹیچ کر دیے جو لندن میں واقع ہیں۔ یہ وہی فلیٹس ہیں جن کی ملکیت کے بارے میں ہر کوئی مختلف تاریخیں بتاتا ہے۔ میاں محمد شریف کی ملکیت سے فلیٹ براہ راست بچوں کو منتقل ہو گئے اور میاں محمد شریف نے اس دنیاوی دولت کی طرف اپنی درویشانہ خصلت کی وجہ سے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔
یہ صرف ایک پہلو ہے۔ ایک جائیداد ہے، ایک گوشوارہ انکم ٹیکس ہے، جوابدہی کرنا ہو تو جس تاریخ سے یہ خاندان اقتدارکی راہداریوں میں آیا ہے، اس دن سے آج تک سوال کیا جا سکتا ہے کہ آپ پر قسمت کی دیوی اس قدر مہربان کیسے ہو گئی؟ یہ صرف پانامہ لیکس کا معاملہ نہیں، پاکستان کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ پاکستان کا مستقبل اور ترقی صرف اور صرف ایک بنیادی تصور میں پوشیدہ ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے جو انکم ٹیکس، منی لانڈرنگ یا کرپشن ختم کرنے کے ذمہ دار ہیں، وہ اس ملک کے ہر طاقتور کا گریبان پکڑ کر سوال کریں، اور اگر وہ نہ کریں تو عدالت اس پر مجبور کرے، اگر عدالت بھی کچھ نہ کرے، اور اس ظلم پر خاموشی رہے تو یہ ملک کو بربادی کی گہری کھائی میں پھینکنے کے مترادف ہوگا۔
سوال کیا جاتا ہے کہ عدالت کی حدود کیا ہیں؟ یہ معاملہ تو پارلیمنٹ کا ہے۔ اس ملک کی بدقسمتی یہی ہے کہ عام آدمی کرپشن، منی لانڈرنگ یا انکم ٹیکس چوری کرے تو یہ ایک جرم ہے لیکن سیاستدان ایسا کرے تو یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، سیاسی انتقام ہے، کسی کو سوال کرنے کی جرات نہیں ہونی چاہیے۔ عام آدمی بددیانتی، کرپشن، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کرے تو مجرم اور چور جبکہ کوئی سیاستدان کرے تو سیاسی الزام۔ عدالت پر صرف ایک ہی بات لازم ہے کہ وہ عام آدمی اور صاحب حیثیت کے درمیان عدل کرتے ہوئے فرق کو ختم کر دے۔ کیا نیب کو بلا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمھارے قانون کے مطابق جس شخص پر الزام ہو، اسے خود اپنی صفائی میں بتانا ہوگا کہ یہ الزام غلط ہے۔ مریم نواز کو نیب قوانین کے تحت پانامہ پیپرز لا کر دکھانا ہوگا کہ اس میں اس کا نام نہیں بلکہ بھائیوں کا نام ہے۔ ایف آئی اے کو بلا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمھارے سامنے پاکستان کے خاندان نے ملک کے باہر اثاثے بنائے، جبکہ ان کا وہاں کوئی ذریعہ آمدن نہ تھا، تم روز منی لانڈرنگ پر عام آدمی کو پکڑتے ہو، تم تحقیق و تفتیش کرکے بتاؤ۔ انکم ٹیکس کے حکام کو بلا کر پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک نئی گاڑی خریدنے پر تمھارا انسپکٹر عام آدمی کا جینا حرام کر دیتا ہے، تم نے گذشتہ برسوں میں اس قدر تیزی سے بڑھنے والے کاروبار کے بارے میں کیا کیا۔ اگر یہ عوام کے ٹیکس پر پلنے والے تمام ادارے انکار کر دیں اور کہہ دیں کہ ہم میں یہ ہمت و جرات نہیں کہ ہم قانون پر عملدرآمد کر سکیں تو کیا سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار بھی نہیں کہ وہ ان تینوں اداروں کے تمام اہلکاروں کو بیک جنبش قلم سزا سنا دے، تمام اہلکاروں کو نوکری سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ جو ادارے اپنے بنیادی مقصد یعنی کرپشن، منی لانڈرنگ یا ٹیکس چوری کا خاتمہ کرنے سے انکار کرتے ہیں، ان کے ”وجود مسعود“ کی اس ملک کو کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے میں عدالت اس اداروں کی غیرموجودگی میں اپنی مدد کےلیے دنیا کے کسی بھی آزاد تفتیشی ادارے کی مدد لے سکتی ہے۔ لیکن شاید اس کی نوبت ہی نہ آئے۔ ان تینوں اداروں کو ختم کرنے کی وارننگ دے کر دیکھیں، خوف سے ان کی ٹانگیں کانپنے لگیں گی، ہزاروں اہلکار نوکری بچانے اور جیل سے بچنے کےلیے ثبوت ہاتھوں میں لے کر عدالت کی جانب بھاگیں گے۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو آئین کے آرٹیکل 184 کو کھرچ دینا چاہیے۔
ایک تبصرہ شائع کریں