غیر یقینی صورتحال،بجٹ میں بھاری ٹیکسز، بزنس کمیونٹی حکومت سے شدید مایوس!

کراچی: کاروباری اداروں نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی حکومت کو معیشت کیلئے خراب ترین حکومت قراردیا ہے اور مسلسل سیاسی انتشار اور بجٹ میں نئے ٹیکسز کے بوجھ کی وجہ سے کاروباری ادارے مستقبل کے حوالے سے شدید مایوسی کا شکارہو گئے ہیں۔
گیلپ پاکستان کی بزنس کانفیڈینس انڈیکس 2024کی دوسرہ سہ ماہی کی رپورٹ کے مطابق موجودہ کاروباری صورتحال،مستقبل کی کاروباری صورتحال اور ملک کی سمت کا اسکو ر4سے 10فیصد تک کم ہوگیا ہے۔
سروے کے نتائج کے مطابق سروے کے ایک قابلِ ذکرشرکاء نے کہاکہ مالی سال 2024-25کیلئے حکومت کا مالیاتی پلان کاروبار کیلئے موزوں نہیں ہے جبکہ 5میں سے 2کاروباری ادارے مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔
سروے کے مطابق نصف سے زائد تقریباً54فیصد کاروباری ادارے مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کومعیشت سنبھالنے میں گزشتہ حکومت کے مقابلے میں ناکام ترین حکومت سمجھتے ہیں جبکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے 23فیصد کاروباری اداروں کاکہنا ہے کہ پچھلی اور موجودہ حکومتیں ایک جیسی ہیں۔ سروے کے نتائج کے مطابق 85فیصد کاروباری ادارے موجودہ حکومت کے مالیاتی منصوبے کو "اچھا بجٹ" نہیں سمجھتے جبکہ 11فیصد مینوفیکچررز اور 15فیصد سروس پرووائیڈرز نے کہاہے کہ بجٹ کاروبار دوست ہے جبکہ حکومت کی جانب سے وفاقی بجٹ میں عائد کیے گئے ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے ٹیکس مسائل کا حل چاہنے والے کاروباری اداروں کی تعداد پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں کافی بڑھ گئی ہے۔
پہلی سہ ماہی کی طرح اس سہ ماہی میں بھی زیادہ تر کاروباری اداروں کا مسئلہ مہنگائی ہے اور 5میں سے 2تقریباً 37فیصد کاروباری ادارے چاہتے ہیں کہ حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرے۔ جون میں مہنگائی 12.6فیصد تک بڑھ گئی تھی اورکمر توڑی 
مہنگائی کی وجہ سے صارفین کی قوتِ خرید مسلسل کم ہورہی ہے۔


کاروبارے ادارے مستقبل کے بارے میں زیادہ مایوسی کا شکارہیں اور 57فیصد کاروباری اداروں نے مستقبل کے بارے میں منفی توقعات کا اظہار کیا ہے جبکہ صرف 43فیصد نے مستقبل میں حالات کے بہتر ہونے کی امید کا اظہار کیا ہے۔ مستقبل کے خالص کاروباری اعتماد کا اسکور گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں 36فیصد کم ہوکر منفی 14فیصد ہوگیا ہے۔
کاروبار کتنا اچھا چل رہا ہے کے سوال کے جواب میں کاروباری اداروں کے مالکان اور منیجرز نے کہاکہ ملکی اور عالمی چیلنجز کی وجہ سے پاکستان میں معاشی تحفظ ایک خواب بن گیا ہے۔اسی طرح 2024کی دوسری سہ ماہی میں خالص موجودہ کاروباری صورتحال کے اسکور میں 16فیصد کمی ہوئی ہے۔
سروے میں شامل 10میں سے 6کاروباری اداروں نے بتایاکہ انہیں لوڈشیڈنگ کا سامناہے جبکہ 16فیصد کاروباری اداروں نے بتایاکہ گرمیوں میں بجلی کے بنیادی انفرااسٹرکچر پر بھاری بوجھ کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طورپر سروے میں شامل61فیصد کاروباری اداروں نے بتایاکہ انہیں لوڈ شیڈنگ کاسامنا ہے جبکہ 39فیصد نے بتایاکہ انہیں لوڈ شیڈنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ہارڈ ویئراور ٹولز،الیکٹریکل اشیاء اور مینوفیکچرنگ مصنوعات فروخت کرنے والے کاروباری ادارے مستقبل کے کاروباری حالات کے بارے میں خاص طورپر مایوس ہیں جبکہ گھروں کی سجاوٹ، گفٹ آئٹمزاور کاسمیٹکس فروخت کرنے والے کاروباری ادارے سب سے زیادہ پُرامید ہیں۔
ملک کی خالص سمت کا اسکور انتہائی منفی ہوکرگزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں 4فیصد کم ہوکر منفی 64فیصد ہوگیا ہے۔ ملک کی سمت کے بارے میں گزشتہ سہ ماہییوں کا مجموعی رجحان مسلسل منفی رہاہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ صرف 18فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ملک درست سمت میں جارہاہے۔
بہت زیادہ مہنگائی اورخراب کاروباری صورتحال کی وجہ سے 9فیصد آجروں خاص طورپر مینوفیکچررز کو دوسری سہ ماہی میں اپنی افرادی قوت کم کرنا پڑی۔ 60فیصد کاروباری اداروں نے کہاکہ اس سال ان کی فروخت بہت زیادہ خراب رہی ہے جبکہ58فیصد سروس پرووائیڈر کے مقابلے میں  66فیصد مینوفیکچررز نے بتایاکہ ان کی سیلز بہت زیادہ خراب رہی۔  
گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اورگیلپ پاکستان بزنس کانفڈینس انڈیکس کے چیف آرکیٹکٹ بلال اعجازنے سروے کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلسل غیر یقینی سیاسی صورتحال اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے حالیہ بجٹ میں بھاری ٹیکسزنے ملک کے کاروباری اداروں کے اعتماد کو شدید متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کاروباری برادری نے سروے میں بجٹ پر شدید تحفظات کا اظہارکیاہے کیونکہ کاروباری ادارے پہلے ہی بالواسطہ اور بلا واسطہ طریقوں سے مختلف ریگولیٹری اقدامات اور ٹیکسز کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کو کاروباری اداروں کی آواز سننے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ سروے ملک بھر کے 30اضلاع کے 454چھوٹے، درمیانے اور بڑے درجے کے کاروباری اداروں کے ساتھ کیا گیا۔

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی