پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن نے دودھ کا عالمی دن منایا، سب کے لیے محفوظ، سستی دودھ کا مطالبہ کیا۔

پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کی جانب سے دودھ کے عالمی دن ''محفوظ دودھ، صحت مند قوم'' کے موضوع پرسیمینار

لاہور  30 مئی:: پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن (پی ڈی اے) نے دودھ کے عالمی دن کے موقع پر محفوظ دودھ، محفوظ قوم: صحت مند پاکستان کے لیے سستی ڈیری کے موضوع پر آگاہی سیمینارکا انعقاد کیا۔جس میں ڈیری انڈسٹری سے وابستہ ماہرین اور کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔شرکاء نے پاکستان میں محفوظ اور معیاری دودھ کی اہمیت پر زور دیا۔

 ڈاکٹر شہزاد امین، چیف ایگزیکٹو آفیسر پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن نے سیمینار کا آغاز کرتے ہوئے دودھ کی اہمیت کو عوامی صحت اور ملکی ترقی کے لیے اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا''دودھ کے عالمی دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں قدرت کے سب سے مکمل غذائی تحفے یعنی دودھ کی اہمیت کو کو اجاگر کرنا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز اقوامِ متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO)نے کیا، ڈیری سیکٹر کے مسائل کو سمجھا جا سکے جو بہت سے افراد کے روزگار کا ذریعہ اور ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کا سبب ہے۔ پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کا مشن یہی ہے کہ ہر شہری کو محفوظ، غذائیت سے بھرپور اور مناسب قیمت پر دودھ دستیاب ہو۔ ہمارا یقین ہے کہ محفوظ دودھ کوئی آپشن نہیں، بلکہ ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے۔''

نور آفتاب، ڈائریکٹر کارپوریٹ افیئرز، ٹیٹرا پیک پاکستان و مشرق وسطیٰ، نے ڈیری پروسیسنگ اور پیکنگ میں جدت کی اہمیت بیان کی۔ ان کا کہنا تھا کہ''دودھ صرف ایک روزمرہ خوراک ہی نہیں بلکہ انسانی صحت، اور ملکی معیشت کی ترقی کا اہم ستون ہے۔ ہم جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہر پاکستانی گھرتک محفوظ اور سستی ڈیری پراڈکٹس پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں۔''

سیمینار میں دودھ کے معیار، قانون سازی، سرٹیفکیشن اور نگرانی کے نظام پر تفصیل سے بات چیت کی گئی۔وائس چیئرپرسن، پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی جہاں آرا وٹو،ڈی جی، پی اے ایف ڈی اے ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا، ایڈیشنل ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی آمنہ رفیق اور سیکریٹری لائیو اسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ ثاقب علی عتیق نے حکومتی حکمتِ عملی اور عوامی شعور اجاگر کرنے کے اقدامات پر روشنی ڈالی۔



رامیش سنگھ اروڑا، وزیر برائے اقلیتی امور و انسانی حقوق پنجاب نے کہا کہ صاف اور محفوظ دودھ کوئی لگزری نہیں بلکہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ انہوں نے کہا''ہر شہری کو صاف، محفوظ اور غذائیت سے بھرپور دودھ ملنا چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ کھلے دودھ میں اکثر  یوریاجیسے کیمیکل شامل کئے جاتے ہیں جو صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس پیکجذ دودھ معیار کے عالمی اصولوں پر پورا اُترتا ہے۔ پنجاب حکومت صوبے میں غذائی کمی کے شکار بچوں کے معاملے سے مکمل طور پر واقف ہے اور ہر گھر تک محفوظ دودھ پہنچانے کے لئے کام کر رہی ہے۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ پیکجڈدودھ پر لگائے گئے ٹیکس سے ڈیری انڈسٹری کے لئے مسائل پیدا ہورہے ہیں جسے صحت و غذائیت کے ایجنڈا کے تحت جلد سے جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔''

رومینہ خورشید عالم، وزیر مملکت و معاونِ خصوصی  برائے وزیرِاعظم نے دودھ کی غذائیت پر زور دیتے ہوئے کہا ''جب ہم صحت بخش خوراک کی بات کرتے ہیں، تو دودھ ہی وہ ایسی خوراک کے طور پر سامنے آتا ہے جو غذائی نظام کے لئے سب سے ضروری ہے۔ غذائیت کی کمی سے نمٹنے کے لئے ایک گلاس دودھ پینے سے بھی بچوں کی صحت میں بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جو اسے سب سے مکمل اور صحت بخش غذا بناتے ہیں۔ ''

میاں مٹھا، منیجر کارپوریٹ ریگولیٹری و سائنسیفک افئیرزنیسلے پاکستان نے کہا ''غذائیت سے بھرپور دودھ ہر پاکستانی کا حق ہے۔ پاکستان میں مارکیٹ میں دودھ دو طرح سے میسرہے، ایک پیکجڈ اور دوسرا کھلا دودھ۔ صارفین کی صحت کے لحاظ سے، پیکجڈ دودھ کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ یہ محفوظ اور صحت مندہے۔''

ڈاکٹر محمد ناصر، ڈائریکٹر کارپوریٹ افیئرز، فریزلینڈ کیمپینا اینگرو پاکستان، نے ''محفوظ دودھ محفوظ قوم'' کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا
''ڈیری سیکٹر ہمیشہ سے معاشرے کی صحت کے تحفظ کا ذمہ دار ہے مگر پاکستان میں اس سیکٹر کی دودھ کی پیداوار دنیا کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ گزشتہ سال پیکجڈ دودھ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگنے کے بعد 500 سے زائد دودھ کے یونٹ بند ہو چکے ہیں اور اس سیکٹر کو تقریباً 1.3ارب روپے کی آمدنی کا نقصان اٹھانا پڑا، جس سے صارفین تک پہنچنے والے دودھ کی غذائیت، معیار اور حفاظت بہت زیادہ متاثر ہوئے ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ ٹیکس 18 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کیا جائے تاکہ ڈیری سیکٹر ترقی کر سکے اور عوام کو غذائیت سے بھرپور محفوظ دودھ میسر ہو۔ ''

عثمان ظہیر، چیئرمین پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن اور سی ای او فوجی فوڈز لمیٹڈ، نے حکومتی تعاون پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ''میں وزیر رامیش سنگھ اروڑا کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہر موقع پر ڈیری سیکٹر کا ساتھ دیا۔ حال ہی میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے ساتھ میٹنگ کے دوران ایک تشویشناک بات سامنے آئی کہ غذائیت میں کمی کے باعث بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے، جو ان کی زندگی بھر کی قابلیت پر اثر ڈالتی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق، پاکستان کو بچوں کی کمزور نشوونما کی وجہ سے سالانہ 6 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہمسائے ملک چین نے 2000 ء میں اسکول دودھ پروگرام شروع کیا تھا جس سے دودھ پینے والے بچوں کی جسمانی نشوونما میں واضح بہتری نظر آئی۔ اس پروگرام کو شروع کرنے کے بعد7 سال کے بچوں کی نشونما میں 0.72 سینٹی میٹر اور 9 سال کے بچوں کی نشونما میں 0.46 سینٹی میٹر کا اضافہ دیکھاگیا۔بطور چیئرمین پی ڈی اے میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود سے سوال کریں کہ ہمیں اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کیا مختلف کرنا ہوگا؟''
سیمینار میں ایک خصوصی سیشن ''محفوظ دودھ، محفوظ قوم'' کے عنوان سے بھی منعقد ہوا جس میں ماہرین نے حکومت، انڈسٹری اور سول سوسائٹی کے باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا تاکہ پروسیسڈ اور ریگولیٹڈ دودھ پر عوام کا اعتماد قائم کیا جا سکے۔

کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی