امید کی کرن: عوامی و نجی شراکت داری کس طرح کراچی کی محروم بستیوں میں بچوں کی صحت کو بہتر بنا رہی ہے

کراچی کی مصروف اور اکثر نظر انداز کی جانے والی شہری کچی آبادیوں میں تبدیلی آ رہی ہے۔ وہ بچے جو کبھی ویکسین سے بچنے والی بیماریوں اور غذائی قلت کے دوہرے خطرات کا سامنا کرتے تھے اب انہیں ایک جدید منصوبے "Engaging Private Providers for Immunization-Integrated Services" کے ذریعے رسائی حاصل ہو رہی ہے جو حفاظتی ٹیکوں اور غذائیت کی خدمات کو یکجا کرتا ہے۔ یہ منصوبہ گیٹس فاؤنڈیشن کے مالی تعاون سے چل رہا ہے اور اس میں ای پی آئی (Expanded Program on Immunization) پاکستان، حکومت سندھ کے محکمہ صحت، آغا خان یونیورسٹی (AKU) اور مقامی برادریوں کے درمیان شراکت داری شامل ہے۔

یہ منصوبہ 2022 میں ایک ضرورت کے تحت شروع کیا گیا۔ کراچی میں موبائل اور ہجرت کرنے والی آبادی کے تیز اضافے کی وجہ سے کثیر آبادی والی محروم کچی بستیوں میں اضافہ ہوا جہاں صحت کی سہولیات، خاص طور پر بچپن کے حفاظتی ٹیکوں جیسی حفاظتی خدمات دستیاب نہیں تھیں۔

کراچی کے تین اضلاع میں پاکستان پولیو پروگرام کے مطابق نامزد کیے گئے 10 ہائی رسک اور پانچ سپر ہائی رسک یونین کونسلز میں جہاں صحت کی سہولیات کم اور نظام پر اعتماد کمزور تھا، خاندان اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ ان علاقوں میں ضلع ایسٹ کی چار، ملیر کی ایک اور ضلع ویسٹ کی دس یونین کونسلز شامل تھیں۔ لیکن دسمبر 2024 تک اعداد و شمار ایک نئی کہانی سناتے ہیں۔ دو سال سے کم عمر کے 144,563 بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے گئے، 68,861 بچوں کی غذائیت کی جانچ کی گئی اور صفر خوراک والے بچوں کی تعداد میں 76 فیصد کمی آئی۔ ان اعداد و شمار کے پیچھے ان گنت چھوٹی کامیابیاں چھپی ہیں۔ ایک ماں جو اب خسرہ سے نہیں ڈرتی، ایک بچہ جو غذائی قلت کے علاج کے بعد دوبارہ طاقت پکڑ رہا ہےاور ایک برادری جو صحت کے کارکنان پر اعتماد کرتی ہے۔

منصوبے کی کامیابی دوہری حکمت عملی پر مبنی تھی ایک طرف 33 سروس مراکز نے صحت کی خدمات کو گھروں کے قریب پہنچایا، طویل اوقات کار اور تربیت یافتہ نجی طبی ماہرین نے معیار کو یقینی بنایا دوسری طرف، مقامی خواتین جو اپنی برادریوں میں قابل اعتماد آوازیں تھیں نے حفاظتی ٹیکوں سے متعلق معلومات پھیلانے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ڈیجیٹل مہمات اور واٹس ایپ نشریات نے پیغامات کو وسعت دی اور نگہداشت کرنے والوں تک EPI سے متعلق معلومات پہنچائیں۔



غذائیت کی خدمات اس کا ایک اہم حصہ ہیں جو خاندانوں کے لیے ایک زندگی بخش سہارا فراہم کرتی ہیں۔ اسکریننگ کے ذریعے 4,629 درمیانے درجے کے غذائی قلت کے شکار اور 1,593 شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی شناخت ہوئی۔ بروقت مداخلت کے ذریعے 568 بچے صحت مند وزن تک پہنچے، اور 177 شدید غذائی قلت سے درمیانی سطح پر آ گئے۔
سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے منصوبے کی افادیت پر بات کرتے ہوئے کہا"ہم امید کرتے ہیں کہ ان کوششوں کو کراچی سے آگے سندھ کے دیگر علاقوں تک توسیع دی جائے گی۔ کراچی کو ایک پائلٹ منصوبے کے طور پر منتخب کیا گیا تاکہ ڈیٹا جمع کیا جا سکے جو دیگر اضلاع میں توسیع کے لیے رہنمائی فراہم کر سکے۔"

آغا خان یونیورسٹی کے شعبہ کمیونٹی ہیلتھ سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور منصوبے کے سربراہ ڈاکٹر زاہد میمن کا کہنا ہےکہ"یہ منصوبہ ثابت کرتا ہے کہ جب عوامی و نجی شعبے کمیونٹیز کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تو ہم صحت کی دیکھ بھال میں موجود رکاوٹوں کو ختم کر سکتے ہیں۔ حفاظتی ٹیکوں اور غذائیت کی خدمات کو یکجا کرکے ہم ایک مضبوط صحت کا نظام قائم کر رہے ہیں۔"

حال ہی میں آغا خان یونیورسٹی میں منعقدہ پرائمری ہیلتھ کیئر سمپوزیم میں وزیر مملکت برائے قومی صحت سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن ڈاکٹر مختار بھرت نے اس منصوبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا"صحت کا شعبہ تنہا اپنے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ صحت کے تعین کنندگان کو حل کرنے کے لیے بین الشعبہ جاتی تعاون کی ضرورت ہے اور اس کے لیے بین الشعبہ جاتی پالیسیاں نافذ کی جانی چاہئیں۔"

اب اس منصوبے کے اسباق سندھ کی صوبائی اور قومی ویکسینیشن حکمت عملی (2025-2030) کا حصہ بن چکے ہیں جو ماڈل کو وسعت دینے کا روڈ میپ فراہم کرتے ہیں۔ کراچی کی شہری کچی بستیوں میں رہنے والے خاندانوں کے لیے یہ صرف پالیسی نہیں بلکہ یہ ایک وعدہ ہے کہ ان کے بچوں کی صحت اہمیت رکھتی ہے۔
________________________________________
اضلاع اور یونین کونسلز جہاں یہ مہم چلائی گئی
یونین کونسلز ضلع
گلزار ہجری، صفورا، پہلوان گوٹھ، گجرو 04 ایسٹ
ملیر کینٹ ملیر
قصبہ کالونی، فرنٹیئر کالونی، بلوچ گوٹھ، میمار آباد، یوسف گوٹھ، چشتی نگر 07، اسلامیہ کالونی 09، منگھوپیر 08، سونگل 05، مومن آباد ویسٹ
________________________________________

کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی