اسلامی بینکاری معاشی بحران کا حل - اسلامی مالیاتی نظام اخلاقی اصولوں، خطرات میں شراکت اور اثاثوں پر مبنی لین دین

پاکستانی حکومت کا 2028 تک بینکاری نظام کو مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر منتقل کرنے کا فیصلہ اس نظام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا واضح ثبوت ہے


تحریر: میاں زاہد حسین 

موجودہ دور میں ایک جانب ترقی پذیر معیشتیں پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں، تو دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک کو طویل مدت سرمایہ کاری کے لیے اعتماد کی بحالی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ مہنگائی سے نمٹنے اور ممکنہ کساد بازاری سے بچنے کے لیے کن اثاثوں پر انحصار کیا چاہیے؟ یہ وہ سوال ہے جو عالمی معیشتوں کے ایوانوں میں گونج رہا ہے۔


گزشتہ چند دہائیوں میں جنگوں نے دنیا کی کمزور معیشتوں کو مزید کمزور کردیا ہے۔ دوسری جانب سود پر مبنی روایتی بینکاری نے بے شمار اداروں اور ریاستوں کو قرضوں میں جکڑ کر بقا کی جدوجہد پر مجبور کردیا ہے۔ ایسے حالات میں اسلامی بینکاری نے پائیداری اور مضبوطی دکھائی ہے، جو غیرروایتی صارفین اور بینکاری نظام سے دور رہنے والے طبقات کے لیے کشش کا سبب ہے۔ اسلامی مالیاتی نظام اخلاقی اصولوں، خطرات میں شراکت اور اثاثوں پر مبنی لین دین پر استوار ہے۔ یہ ترقی پذیر اقوام کے لیے ایک موثر متبادل کے طور پر سامنے آرہا ہے، جو حالیہ عالمی بحرانوں کے پیش نظر اپنے مالیاتی نظام پر نظرثانی کررہی ہیں۔




پاکستانی حکومت کا 2028 تک بینکاری نظام کو مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر منتقل کرنے کا فیصلہ اس نظام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا واضح ثبوت ہے۔ بحیثیت اسلامی جمہوریہ، پاکستان کو شروع ہی سے شریعت کے مطابق تجارتی ذرائع اپنانے کا جواز حاصل تھا، تاہم بدلتے عالمی حالات اور خارجہ پالیسیوں نے روایتی بینکاری کے استعمال کو ناگزیر بنا دیا۔Mit Ghamr ماڈل کی کامیابی اور اس کے بعد اسلامی مالیاتی طریقوں کے فروغ کے بعد اسلامی بینکاری کو بیسویں صدی کے اختتام پر پاکستان میں متعارف کروایا گیا۔ اکیسویں صدی میں اس شعبے کی ترقی کوئی راز نہیں۔ آج اسلامی بینکاری کی بدولت مالیاتی شمولیت کو فروغ مل رہا ہے، بالخصوص اُن افراد کے درمیان جو مذہبی وجوہات کی بنا پر روایتی بینکاری سے گریزاں تھے۔


پاکستان میں اسلامی بینکاری کا شعبہ مالیاتی شمولیت کے فروغ میں ایک موثر قوت بن کر سامنے آیا ہے، جس نے لاکھوں ایسے افراد کو بینکاری نظام کا حصہ بنایا ہے، جو ماضی میں اس سے دُور تھے۔ سود (رِبا) پر مبنی لین دین کا خاتمہ اس تبدیلی میں فیصلہ کن عنصر ثابت ہوا ہے، جس نے ان گہرے مذہبی اور ثقافتی تحفظات کا خاتمہ کیا جو طویل عرصے سے پاکستانی عوام کو روایتی بینکاری سے دور رکھے ہوئے تھے۔


یہ تبدیلی پاکستان کے مالیاتی منظرنامے میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے، جہاں اسلامی بینک اپنی ڈیجیٹل اور فزیکل موجودگی کو تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔ اس ضمن میں فیصل بینک کی مکمل تبدیلی ایک نمایاں مثال ہے، جو عالمی سطح پر سب سے بڑی بینکاری منتقلی ہے۔ فیصل بینک کی 855 سے زائد برانچیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ شریعت کے مطابق بینکاری نہ صرف ممکن ہے بلکہ تیزی سے ترقی کررہی ہے۔


بین الاقوامی رپورٹ Islamic Banking for Financial Institutions: Unlocking Growth Amidst Global Shiftsکے مطابق 2024 میں اسلامی مالیاتی اثاثے 5.5 ٹریلین امریکی ڈالرز کی سطح پر تھے، جو 2028 تک 7.5 ٹریلین امریکی ڈالرز تک پہنچنے کی توقع ہے جو اس شعبے کی عالمی افادیت کو ظاہر کرتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سابق ایم ڈی کرسٹین لاگارڈ نے اسلامی مالیات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظام معاشی شمولیت کو فروغ دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلامی مالیات کی بنیادی اقدار شراکت، مساوات، مالکانہ حقوق اور اخلاقیات تمام عالمی اصولوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔


افریقہ کی بڑی آبادی اب بھی بینکاری نظام سے باہر ہے، جہاں اسلامی مالیات مالی شمولیت کے اس خلا کو پُر کرسکتی ہے۔ آئی ایم ایف ورکنگ پیپر کے مطابق سب صحارا افریقہ میں ہر چوتھا بالغ شخص باقاعدہ بینک اکاؤنٹ رکھتا ہے۔ مذہبی وجوہات اس عدم شمولیت کا ایک بڑا سبب ہے، جس کا حل اسلامی بینکاری کی اخلاقی اور غیرسودی بنیادوں میں پنہاں ہے۔


دنیا کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا میں شریعت پر مبنی معیشت کو قومی ترقی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ انڈونیشیا کی وزارت قومی ترقیاتی منصوبہ بندی کی ڈائریکٹر روسی ویڈیاواتی کا کہنا ہے کہ شریعت پر مبنی معیشت ترقی کا نیا دروازہ ہے، جس میں بے پناہ صلاحیت ہے۔ ہمیں پائیدار معاشی ترقی کے لیے اسلامک فنانس بڑے پیمانے پر اپنانے کی ضرورت ہے۔


ورلڈ بینک بھی اسلامی مالیات کو پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں مددگار تسلیم کرتا ہے۔ بینک کے سینئر منیجنگ ڈائریکٹر ایگزل وان ٹروٹسین برگ کے مطابق اسلامی فنانس کم مراعات یافتہ طبقات تک موثر انداز میں پہنچ کر نہ صرف مالی شمولیت میں کردار ادا کرسکتی ہے بلکہ ماحولیاتی استحکام کے اقدامات میں بھی معاونت کرسکتی ہے۔ انہوں نے ملائیشیا اور انڈونیشیا میں جاری گرین سکوک منصوبوں کا حوالہ دیا، جو قابلِ تجدید توانائی اور زراعت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔


اسلامی مالیات کے اخلاقی اصول جن میں سود (رِبا) کی ممانعت اور منافع و نقصان کی بنیاد پر شراکت شامل ہے، معاشرتی انصاف اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ اصول حد سے زیادہ خطرات سے اجتناب اور حقیقی اقتصادی سرگرمیوں سے جڑی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرکے مجموعی معاشی استحکام میں کردار ادا کرتے ہیں۔Journal of Islamic Accounting and Business Research میں شائع ایک تحقیقی مطالعے کے مطابق اسلامی مالیات خصوصاً مسلم اکثریتی اور ترقی پذیر ممالک میں اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔


اسلامی بینکاری کا بڑھتا ہوا کردار ترقی پذیر اقوام کے مالیاتی نظام کو نئی شکل دینے کے لیے اہم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ نظام معاشی حل فراہم کرتے ہوئے مذہبی و ثقافتی اقدار کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرتا ہے، مالی شمولیت کو فروغ دیتا ہے، پائیدار ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے اور مستحکم معیشتوں کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان کے لیے اگلا عشرہ بہت اہم ہے، جس میں پالیسی ساز، مالیاتی ادارے اور تمام شراکت دار مل کر اسلامی مالیات کی طاقت کو ایک موثر، جامع اور منصفانہ ترقی کے لیے بروئے کار لاسکتے ہیں۔ تاہم اس سفر میں حکمت، مشاورت اور اسلامی معیشت کے اصولوں کو مستحکم انداز میں اپنانا ہوگا۔

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی