کراچی (تحریر ایک شہری ) صولت مرزا ایک شریف انسان سے قاتل دہشت گرد کیسے بنا؟ صولت مرزا کرکٹ کے اچھے کھلاڑی تھے اور اپنے علاقی کرکٹ ٹیموں میں کرکٹ کھیلا کرتا تھا ، اس وقت وہ کسی پارٹی کا کارکن نہ تھا اور نہ ہی سیاسی سوچ رکھتا تھا۔ ایم کیو ایم کا محض حمایتی تھا لیکن کارکن نہیں۔ اس وقت ایم کیو ایم مہاجر قومی مومنٹ کے نام سے کام کررہی تھی۔
صولت مرزا کی زندگی نے 1993 میں اس وقت کروٹ بدلی جب ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انہیں گلی میں کرکٹ کھیلتے ہوئے ، صرف شبہے میں گرفتار کیا۔ اور دوران حراست اپنے روایتی انداز میں اس پر اتنا تشدد کیا ہے کہ اس کے اندر رہتا انسان اور انسانیت ، حیوان اور درندہ جانور میں بدل گیا۔ اور جلد ہی صولت مرزا کا نام کراچی کے شہریوں کے لئے دہشت کی علامت بن گیا۔ 1995 -96 میں پولیس تھانوں، پولیس اہلکاروں کے قتل، راکٹ حملوں سمیت بے شمار مقدمات کو پولیس نے ان کے کھاتے میں ڈال دیا۔
بے نظیر کے دوسرے دور اقتدار میں کراچی آپریشن کے دوران صولت فرار ہوکر بیرون ملک چلا گیا پھر جب بے نظیر کی حکومت کو زوال آگیا اور 1996میں صدر لغاری نے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اسمبلیاں تخلیل کردی ، مرزا بھی واپس پاکستان آگیا۔
5 جولائی 1997 کی ایس سی کے منیجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد کو ان کے ڈرائیوراور محافظ سمیت ڈی ایچ اے میں قتل کردیا اور 1998 میں کراچی پولیس نے صولت مرزا کو کراچی ایئر پورٹ سے گرفتار کیا، اس وقت وہ بنکاک سے کراچی پہنچے تھے۔اور 1999میں شاہد حامد ان کے ڈرائیور اور محافظ کے قتل میں انہیں سزائے موت سنائی گئی اور سزائے موت کے خلاف ان کی اپیلیں عدالتوں میں مسترد ہوتی رہیں۔
صولت مرزا کے بیانان اپنی پارٹی کے خلاف تو سب نے ٹی وی پر دیکھا اور اخبارات و سوشل میڈیا پر پڑھا ہوگا۔ صولت مرزا کی اسی بات پر کہ ’’پارٹی اپنے کارکنوں کو ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کرتی ہے ، ہاتھ صاف کرکے اور ٹشو پیپر پھینک دیتی ہے۔ جیسے کہ انہیں استعمال کیا اور پھینگ دیا گیا‘‘۔ مرزا کی یہ بات کسی ایک پارٹی سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ اس ملک میں کئی ایسی پارٹیز ہیں جو اپنے کارکنوں کو استعمال کرتے ہیں اور پھینک دیتے ہیں یا پھر ماربھی دیتے ہیں۔ ایسے واقعات ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ صولت نے جو بھی اب تک بیانات دیئے ہیں وہ ہمارے ملک کے نوجوانوں اور والدین کے لئے سبق ہیں۔ جلسوں ، دھرنوں اور دیگر سیاسی تقریبات میں وقت ضائع کرنے کے بجائے جو مزدور ہیں مزدوری کریں، طالب علم ہیں تعلیم پر توجہ دیں۔ ورنہ یہ پارٹیاں تو کسی کی بہی خواہ نہیں ،استعمال کریں گی اور ٹشو کی طرح پھینک دیں گی۔
مجرم بنانے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تفتیش کرنے کاطریقہ کار بھی اتنا ہی شریک ہے جتنا کہ ایک عسکری ونگ رکھنے والی پارٹی ہوتی ہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے کہ جو جیل گیا وہ زندگی سے گیا۔ ایک شریف آدمی جیل جانے کے بعد شرافت بھول جاتا ہے ۔ آج کل پولیس کو نشانہ بنانے والے بھی شاید کبھی جیل میں ان کے انسانیت سوز سزائوں کو بھکت چکے ہیں جس نے انہیں انسان سے درندہ بنادیا ہے۔
صولت مرزا کی دیوڈیوز ملاحظہ کریں اور سبق حاصل کریں۔
ایک تبصرہ شائع کریں