دو روز پہلے عالمی یومِ صحافت کے موقع پر موقر بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے ایک آزادی اعشاریہ ( فریڈم انڈیکس ) جاری کیا جس کے مطابق گذشتہ برس دنیا کے ایک سو اسی ممالک میں اطلاعات تک رسائی کے بنیادی حق کی تین ہزار سات سو انیس پامالیاں ہوئیں جو سال دو ہزار تیرہ کے مقابلے میں آٹھ فیصد زائد ہیں۔گذشتہ برس صحافیوں کی جان کو سب سے زیادہ خطرہ شمالی افریقہ سے مشرقِ وسطی تک پھیلی ہوئی شدت پسند تنظیموں ( بوکو حرام ، داعش وغیرہ ) اور جنوبی امریکا کی جرائم مافیا کی طرف سے لاحق رہا۔اس انڈیکس کے مطابق آزادیِ صحافت کے اعتبار سے بہترین ممالک فن لینڈ ، سویڈن ، ناروے اور ڈنمارک اور بدترین ممالک اریٹیریا ، ترکمانستان ، ایران ، شام ، چین اور شمالی کوریا ہیں۔
گذشتہ برس بھی پاکستان آزادیِ صحافت کی انڈیکس میں نچلی سطح پر رہا یعنی ایک سو انسٹھویں درجے پر اور یہ درجہ سال دو ہزار تیرہ کے مقابلے میں اور ابتر ہوا جب پاکستان اسی انڈیکس میں ایک نمبر اوپر یعنی ایک سو اٹھاونوی پوزیشن پر تھا۔
صحافیوں کے تحفط کے لیے کام کرنے والی ایک سرکردہ عالمی تنظیم سی پی جے ( کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ) کے مرتب اعداد و شمار کے مطابق انیس سو بانوے سے دو ہزار چودہ کے بائیس برس کے دوران دنیا بھر میں گیارہ سو تئیس عامل صحافی ہلاک ہوئے۔اس عرصے میں سب سے زیادہ صحافی عراق (ایک سو چھیاسٹھ )، شام (اسی )، فلپینز (ستتر) اور روس اور پاکستان ( چھپن فی ملک ) میں مارے گئے۔تنظیم کے مطابق دو ہزار نو سے چودہ تک کے پانچ برس میں پندرہ پاکستانی صحافیوںاور لکھاریوں کو جان کے خوف سے ملک چھوڑنا پڑا۔ پاکستان میں سیکیورٹی اداروں اور مذہبی ، سیاسی و نسلی نان اسٹیٹ ایکٹرز سے صحافیوں کو یکساں خطرہ ہے اور پچھلے پانچ برس میں یہ خطرہ مزید بڑھا ہے۔چنانچہ اس کا براہِ راست اثر اطلاعات تک رسائی کے بنیادی حق پر پڑا ہے۔
حالانکہ پاکستان اب بھی ان ممالک کی ٹاپ ٹین لسٹ سے باہر ہے جہاں اطلاعات تک رسائی بہت مشکل ہے مگر خطرہ یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ مجوزہ سائبر کرائمز ایکٹ کا موجودہ مسودہ جوں کا توں منظور کرلیتی ہے تو پھر سیکیورٹی اداروں کو ہر طرح کا آئی ٹی ڈیٹابلا عدالتی وارنٹ اپنی تحویل میں لینے اور صوابدیدی سنسر کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔
یہ تو تھی بین الاقوامی تصویر۔سوال یہ ہے کہ پاکستان میں لکھنے اور بولنے کی آزادی کے مسلسل سکڑاؤ میں صحافیوں اور ان کے اپنے اداروں کا کیا کردار ہے اور اگر اس کے خلاف مزاحمت ہو بھی رہی ہے تو کہاں اور کس پیمانے پر ؟ یہ وہ بحث ہے جس میں پڑنے سے صحافیوں کی دلچسپی روز بروز کم ہورہی ہے اور آسان راستہ یہ نکالا جارہا ہے کہ اپنے مصائب کے تدارک کا سوچنے کے بجائے الزام دوسروں پے منڈھ کے سمجھ لیا جائے کہ فرض پورا ہوگیا۔
آج پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں جتنے بھی صحافی کام کررہے ہیں ان میں سے اسی فیصد وہ ہیں جو گذشتہ دس سے پندرہ برس کے دوران اس پیشے سے وابستہ ہوئے۔ اسی عرصے میں بے لگام کارپوریٹ اور کمرشل مفادات نے ادارتی مفادات کو بے دردی سے پیچھے دھکیلا۔لہذا صحافیوں کی بیشتر نئی نسل اس صحافتی کلچر سے ناواقف یا بیگانہ ہے جس میں پروفیشنل ازم کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت آئیڈیل ازم بھی شامل تھا۔چونکہ اس نسل نے با اختیار ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر دیکھا ہی نہیں لہذا اسے یہ جاننے سے بھی دلچسپی نہیں کہ کسی زمانے میں اس خبری جنگل میں ایڈیٹوریل گائیڈ لائن نامی کسی پرندے کا بھی بسیرا ہوا کرتا تھا جسے جدید عالیشان میڈیائی عمارت نے بے گھر کردیا اور اب بیشتر کام دھاڑی وار ادارتی پالیسی کے تحت مالکانہ افسر لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ان کے عہدے اور پیکیجز سن کے یوںلگتا ہے جیسے کوئی میڈیائی ادارہ نہ ہو کوئی بینک ، کارپوریشن یا فارماسوٹیکل کمپنییا فائیو اسٹار این جی او ہو۔
وہ زمانہ لد گیا جب ٹچے سے ٹچا ادارہ بھی خبری اخلاقیات کا تھوڑا بہت پابند ہوتا تھا اور خبر تب بنتی ، چھپتی یا نشر ہوتی تھی جب یقین ہوجائے کہ رپورٹر نے جن ذرایع سے خبر لی وہ قابلِ بھروسہ ہیں اور تفصیلات پیوندکاری سے پاک ہیں۔کوئی صحافی اگر راتوں رات بلاجواز خوشحالی میں نہا جاتا تو برادری اس کے بارے میں لاشعوری طور پے محتاط ہو جاتی تھی۔
پر بھلا ہو پچھلے بیس برس میں تیزی سے پروان چڑھنے والے ’’خود بھی کھاؤ ہمیں بھی کھلاؤ ’’ کلچر کا۔اور خیر ہو گلا کاٹ میڈیائی مسابقت کی کہ جس میں پیشہ ورانہ حلال حرام کا نظریہ عملیت پسندی کا نوالہ بن گیا۔اب تو یوں ہے کہ خبر نہیں بھی ہے تو تخلیق کر لو۔کردار نہیں مل رہا تو خود بنا لو یا بن جاؤ یا فرض کرلو۔پلانٹڈ اور غیر پلانٹڈ کے چکر میں مت پڑو ، ایکسکلوسیو پر دھیان دو تاکہ سینہ ٹھونک کر تم اور میں کہہ سکیں کہ روزنامہ پروانہ آج پھر بازی لے گیا یا یہ نیوز سب سے پہلے دھڑم دھکیل چینل نے بریک کی۔
جب ایک دفعہ بند ٹوٹ جائے یا بقول شخصے جھاکا کھل جائے تو پھر کوئی حد نہیں بچتی۔بقول رساچغتائی
صرف مانع تھی حیا بندِ قبا کھلنے تلک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ایسا کھلا
کچے مکان کی دیوار کیا گری کہ سیاسی ، سرکاری ، غیرسرکاری ، مشکوک ، غیر مشکوک ہر ایک نے اپنے اپنے رستے بنا لیے۔وہ صحافی جسے کسی زمانے میں خبر کے چکر سے ہی فرصت نہ تھی اب پلاٹوں ، مراعات ، دوروں ، پبلک ریلیشننگ، فنڈنگ ، چندے ، سودے بازی ، فیورز ، تنظیمی جوڑ توڑ ، ایجنڈا سازی ، منتخب تابع داری اور لابنگ وغیرہ کے چکر میں ایسا پھنسا کہ قلم کا سارا وقار اور دبدبہ دبے پاؤں دیوار کود کے لاپتہ ہوگیا۔وہ شاخ ہی نہ رہی جس پے آشیانہ تھا۔ وہ ڈھال ہی ٹوٹ گئی جس کی مدد سے صحافی خود کو اور اپنے پیشے کو بچاتا تھا۔ چلچلاتے حالات نے صحافی اور صحافت کے ساتھ وہی کیا جو ایچ آئی وی جسم کے دفاعی نظام کے ساتھ کرتا ہے۔یعنی ڈیفنس میکنزم اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ معمولی سے معمولی وائرس بھی بے دھڑک جان لیوا حملہ کردے۔
یہی صحافی تھے جو اب سے تیس برس پہلے تک ایک ادارے اور ایک ساتھی پر حملہ سب پر حملہ تصور کرتے ہوئے ملک گیر مزاحمت پر یقین رکھتے تھے۔لیکن اب اس دیوار میں اینٹوں سے زیادہ شگاف ہیں۔اب کوئی نہیں کہتا کہ یہ بندہ فلاں اخبار یا نشریاتی ادارے میں کام کرتا ہے۔بلکہ یہ تعارف کرایا جاتا ہے کہ یہ ہیں جنابِ پنگا بیروی۔بہت باکمال و باعزت صحافی ہیں کیونکہ ان کے رابطے فلاں فلاں خوفناکوں سے ہیں۔
اور یہ ہیں جناب کمرشل اجنالوی جو پیدل آئے تھے مگر دیکھتے ہی دیکھتے ماشاللہ اپنی محنت سے بزورِ قلم دو تین برس میں وہ مقام بنایا کہ آج قصرِ اجنالہ کے مالک ہیں ، فلانا ریسٹورنٹ بھی انھی کا ہے ، ڈھماکا پرائیویٹ اسکول بھی آپ ہی کے دم سے ہے لہذا حاسدوں سے بچاؤ کے لیے باوردی گارڈز بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور برسوں ہوگئے جب بھائی کمرشل نے گھر والوں کے ساتھ ڈنر کیا ہو۔فرصت ہی نہیں ملتی پیشہ ورانہ مصروفیات اور خلق خدا اور ناخداؤں کی خدمت سے۔
ہاں یہ چیدہ چیدہ مثالیں ہیں مگر ان چیدہ چیدہ مثالوں نے ان ہزاروں صحافیوں اور میڈیائی کارکنوں کو بھی مشکوک بنا دیا ہے جنھیں منہ مانگی تنخواہ تو کیا ملے گی منہ دکھائی کے برابر پیسے بھی نہیں ملتے اور ملتے بھی ہیں تو توڑ توڑ کے ، لیٹ لیٹ کے۔اور پھر ان بجھے چہروں سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ صمیمِ قلب سے پیشہ ورانہ ذمے داریاں روایتی جرات کے ساتھ نبھائیں اور اپنا اور اپنے ادارے کا نام روشن کریں۔
جب اپنا ہی یہ حال ہوجائے تو پھر کس منہ سے آزادی و غلامیِ صحافت پر بات ہو یا مزاحمت کے بارے میں سوچا بھی جائے۔کیا یہ غنیمت نہیں کہ ہم آج بھی بازؤں پر چند گھنٹے کے لیے سیاہ پٹیاں باندھ کے خود پر علامتی افسردگی طاری کرلیتے ہیں اور پنجرے سے کم ہوجانے والی ایک اور مرغی کی یاد میں ساٹھ سیکنڈ کی تعزیتی خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں بڑا افسوس ہوا۔بہت اچھا ساتھی تھا ہمارا۔۔۔
اشاعت بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"
ایک تبصرہ شائع کریں