برصغیر کے مسلمانوں میں سیکولرازم اور مادہ پرستی کی ابتداء

اوریا مقبول جان

اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں جہاں نور ایمان اور ہدایت کا ذکر فرمایا ہے تو اسے اپنا خاص فضل کہا ہے۔ ہدایت کسی شخص کی کوششوں اور کاوشوں کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ اللہ ہدایت کسی کے مالی حالات اور دنیاوی جاہ و جلال کو دیکھ کر عطا نہیں کرتا۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کے لیے لڑنے والے، آواز بلند کرنے والے، اس کے نام کا غلغلہ چار دانگ عالم میں پھیلانے والے فاقہ مست، بے سروسامان ہیں یا ان کے پاس وسائل دنیا کی بھرمار ہے۔

اس کا دعویٰ ہے کہ وہ بہت سوں کو ہدایت بخشتا ہے اور بہت سوں کو گمراہی کے اتھاہ سمندر میں پھینک دیتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اس کا ایک قاعدہ ہے اللہ فرماتا ہے ’’اللہ کو اس بات سے عار نہیں کہ وہ مچھر یا اس سے بھی کمتر کسی چیز کی مثال بیان فرمائے۔ جو مومن ہیں وہ یقین کرتے ہیں کہ وہ ان کے پروردگار کی طرف سے سچ ہے اور جو کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ کی مراد ہی کیا ہے۔ اس سے اللہ بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بخشتا ہے اور گمراہ بھی کرتا ہے تو صرف نافرمانوں کو (البقرہ 26) اسی آیت کے ساتھ ہی اللہ نے نافرمانوں کی تعریف کی ہے اور بتایا کہ ان کی نشانیاں کیا ہیں۔

اللہ فرماتا ہے ’’جو اللہ سے اقرار کو مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس رشتہ قرابت کے جوڑے رکھنے کا اللہ حکم دیتا ہے اور اس کو قطع کر دیتے ہیں اور زمین میں خرابی کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں (البقرہ 27) اسی لیے اللہ نے نور ہدایت کو اسباب دنیا سے علیحدہ کر دیا اور کامیابی کو بھی اس دنیا کے جاہ و جلال اور کروفر سے مختلف چیز قرار دیا بلکہ ہر اس شخص کو اپنے غضب کا نشانہ بنایا جسے اپنے وسائل، طاقت اور قوت پر اسقدر بھروسہ تھا کہ اس پر گمان ہونے لگا کہ اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ فرعون کے غرقابِ نیل ہونے کا قصہ اللہ کی ان نشانیوں میں سے ایک ہے جس میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے بنی اسرائیل کو فرعون کے بدترین مظالم سے نجات دلائی۔ اس فرعون سے جو تمہارے بیٹوں کو قتل کر دیتا اور بیٹیوں کو زندہ رکھتا۔ اللہ نے انسانی تاریخ میں بار بار یہ ثابت کیا کہ وہ کیسے بے سروسامان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور کیسے وسائل سے مالا مال افراد کو گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں چھوڑ دیتا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں نے کئی سو سال حکومت کی۔ اللہ نے انھیں فتح و نصرت سے بھی سرفراز کیا اور پورے علاقے میں ان کی دھاک کو بھی قائم رکھا۔ مغلیہ سلطنت مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا سرمایہ، دولت، علم، اسباب سب ان کے پاس جمع تھے۔ مغلیہ دور کا سب سے مستحکم اور شاندار زمانہ جلال الدین اکبر کا طویل دور اقتدار سمجھا جاتا ہے۔ 13 سال کی عمر میں برسراقتدار آنے والا اکبر ایک سیدھا سادا خوش عقیدہ مسلمان تھا۔ نماز باجماعت کی پابندی تو ایک طرف وہ خود اذان دیتا، امامت کراتا اور مسجد میں اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتا۔ صدر الصدور شیخ عبدالغنی کے علم کا وہ معتقد تھا اور اکثر حدیث سننے ان کے گھر جاتا، اپنے بیٹے شہزادہ سلیم کو ان کی شاگردی میں داخل کیا تاکہ عبدالرحمن جامی کی ’’چہل حدیث‘‘ ان سے پڑھے سلطان الہند خواجہ اجمیری چشتی سے ایسی روحانی عقیدت اس میں پیدا ہوئی کہ کئی دفعہ فتح پور سیکری اور آگرے سے پیدل اجمیر گیا۔

شیخ سلیم چشتی کی قربت کی خاطر تمام تخت و تاج فتح پور سیکری منتقل کیا اور وہاں ایک پرانے سے حجرے میں اکثر اوقات مراقبوں، دعاؤں اور عبادتوں میں گزارتا۔ یہیں اس نے ایک نئی عمارت تعمیر کی جس کا نام عبادت خانہ رکھا اور ہر جمعے کی نماز کے بعد وہ یہاں آ کر بیٹھتا اور وقت کے مشائخ، علماء، فضلا اور مقربین مذہبی مسائل پر آزادانہ بحث کرتے۔ اس بحث کا دائرہ بہت وسیع ہوتا تھا۔ اس میں دنیا بھر کے مذاہب اور ادیان پر گفتگو ہوتی۔ انھی دنوں یورپ میں تحریک احیائے علوم چلی تھی جس نے وہاں کے رہنے والوں میں ترقی اور علم کی تلاش کی ایک نئی روح پھونک دی تھی۔

اسپین سے مسلمانوں کے علمی ورثے سے فیض یاب ہونے کے بعد یورپ نے اپنے اندر جو تبدیلی پیدا کی وہ انھیں مذہب سے آہستہ آہستہ دور لے گئی اور پھر انھوں نے اس بات پر کامل یقین کرلیا کہ دنیا کی تمام تر ترقی صرف اور صرف اسباب کی محتاج ہے اور یہ اسباب بھی انسان خود پیدا کرتا ہے۔ اس کے لیے کسی غیر مرئی یا بلند و بالا طاقت کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ نظریات اکبر کے دربار کی گفتگو میں بھی عام ہونے لگے، ابو الفضل اور فیضی جیسے نورتن جو اپنی آزاد خیالی کی وجہ سے مشہور تھے اس کے قریب آتے گئے۔ سر تھامس رو نے 1613ء میں جو سفرنامہ مرتب کیا ہے اس میں دربار اکبری کی ان تمام بحثوں کا تذکرہ ملتا ہے۔

ان تمام بحثوں کے نتیجے میں اکبر کے دل میں یہ خیال مضبوط ہو گیا کہ سچائی کسی ایک مذہب کا اجارہ نہیں بلکہ ہر مذہب میں اچھی اچھی باتیں موجود ہیں، اس لیے اسلام کو دیگر مذاہب پر کوئی برتری نہیں دی جا سکتی۔ بادشاہ کے دل میں اس تصور کے آتے ہی ہندو پنڈتوں اور عیسائی پادریوں نے اسلام اور شعائر اسلام پر آزادانہ گفتگو شروع کر دی۔ حیرت کی بات ہے کہ اس سب کا آغاز بے لاگ تحقیق اور آزادی اظہار کے نام پر ہوا۔ بادشاہ اور اس کے مشیر ہر مذہب کو اپنے علم اور اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھتے اور جو چیز ان کی عقل میں نہ آتی اسے فوراً رد کر دیتے۔ عقل کی اس کسوٹی پر رد ہونے والی چیزوں میں روزِ آخرت، حساب کتاب، وحی، رسالت اور سب سے بڑھ کر اللہ کی حاکمیت جیسے عقائد شامل تھے۔

یہ وہ صورت حال تھی جس سے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں سیکولرازم اور مادہ پرستی کی بنیاد پڑی۔ سیکولرازم کا کمال یہ ہے کہ یہ دنیا کے ہر مذہب کو اپنے نظریات کے لیے اسقدر خطرہ تصور نہیں کرتا جس قدر اسلام کو تصور کرتا ہے۔ کیونکہ باقی تمام مذاہب ہیں جب کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی اور طرز معاشرت، سیاست اور معاشیات کا درس دیتا ہے۔ اس کے بتائے ہوئے نظام زندگی پر حملہ تو اتنا آسان نہیں کہ کوئی اور بہتر متبادل میسر نہیں۔ اسی لیے اس کے بنیادی عقائد اور شخصیات کو نشانہ بنا کر سیکولرازم اور مادہ پرستی کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ اس دربار کا نقشہ ایک مورخ اور بہت بڑے عالم دین نے یوں کھینچا ہے۔ ’’اکبر کے دربار میں یہ رائے عام تھی کہ ملت اسلام جاہل بدووں میں پیدا ہوئی تھی، یہ کسی مہذب و شائستہ قوم کے لیے موزوں نہیں۔

نبوت، وحی، حشر و نشر، دوزخ جنت، ہر چیز کا مذاق اڑایا جانے لگا، قرآن کا کلام الٰہی ہونا مشتبہ، وحی کا نزول عقلاً مستعبد، مرنے کے بعد ثواب و عذاب غیر یقینی، البتہ تناسخ پر یقین ممکن، معراج کو علانیہ محال قرار دیا جاتا، ذات نبویؐ پر اعتراضات کیے جاتے۔ خصوصاً غزوات پر کھلم کھلا حرف گیریاں کی جاتیں۔ دنیا پرست علماء نے اپنی کتابوں کے نسخوں میں نعت لکھنی چھوڑ دی تھی۔ دیوان خانہ شاہی میں کسی کی مجال نہ تھی کہ نماز پڑھ سکے‘‘۔ یہی حالات تھے جب اکبر نے یہ حکم دے دیا تھا کہ نئی مسجدیں تعمیر نہ ہوں، پرانی مسجدوں کی مرمت نہ ہو، یہاں تک کہ اس کے آخری ایام حکومت میں لاہور شہر میں کوئی مسجد نہ رہی تھی اور مسجدوں کو اصطبل بنا دیا گیا تھا۔ یہ وہ تمام حالات اور ایسے سوالات ہیں جو آج بھی کسی مادہ پرست سیکولر محفلوں کے بحث مباحثے میں آپ کو نظر آئیں گے۔

کسی سیکولر دانشور کے مضمون کو اٹھائیے، کسی ویب سائٹ پر چلے جائیے۔ آپ کو اگر کسی مذہب پر اعتراض نظر آئیں گے تو صرف اور صرف اسلام پر۔ اکبر کے اسی سیکولر ماحول سے دین الٰہی نے جنم لیا۔ جس کے نظریات کو بیان کرنے کے لیے ایک الگ مضمون چاہیے لیکن اللہ اپنے بندوں کو ہدایت مہیا کرنے کا بندوبست ضرور کرتا ہے۔ اللہ نے اس طوفانی یلغار کے مقابلے میں ایک عظیم شخصیت کو کھڑے ہونے کی توفیق عطا فرمائی جن کا نام مجدد الف ثانی تھا۔ پورے برصغیر میں پیران طریقت بھی موجود تھے اور علمائے عظام بھی، لیکن یہ سب کے سب وقت کی مصلحت میں خاموش تھے۔ یہ سب بھی دنیا کے اسباب کو ترقی کی معراج سمجھنے لگ گئے تھے۔ صرف دو لوگوں کا ذکر ملتا ہے جو اس گمراہی کے خلاف سینہ سپر ہوئے۔ ایک مخدوم موسیٰ پاک شہید کے بھائی شیخ عبدالقادر گیلانی اور دوسرے اجمیر شریف کے متولی شیخ حسین اجمیری۔ دونوں کے نصیب میں قید کی صعوبتیں آئیں۔

مجدد الف ثانی کو اپنے زمانے میں علماء، شیوخ اور دانشوروں نے معاملہ شناسی سے عاری، دنیا کے حالات سے بے خبر، مصلحت کے مخالف اور عقل و ہوش سے بے بہرہ قرار دیا۔ ان کا تمسخر اڑایا گیا۔ انھیں وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کا طعنہ دیا گیا۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اللہ نے نصرت مجدد الف ثانی کے دست حق پرست پر رکھ دی تھی اور اکبر کا دین الٰہی اپنے تمام تر اسبابِ دنیا کے باوجود اس کی موت کے ساتھ اپنی موت مر گیا۔ اللہ کے بندوں کی ایک اور پہچان ہے جو مجدد الف ثانی کے کردار میں نظر آتی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں ’’اللہ کے راستے میں جو ملامت تمہیں ملتی ہے یہ تو اللہ کا فضل ہے‘‘۔ اسی لیے وہ اس ملامت پر اور اپنا تمسخر اڑانے پر، اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اپنے راستے پر مستقل گامزن رہتے ہیں کہ انھیں اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور کامیابی بھی اسی کی عطا ہے۔

اشاعت بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی