غذر کی خواتین خودکشیاں کیوں کر رہی ہیں؟


شمائلہ جعفری
گلگت سے دو گھنٹے کی مسافت پر ضلع غذر زمین پر کسی جنت سے کم نہیں۔گہرا نیلا آسمان اور روئی کی طرح اڑتے بادلوں کے ٹکڑے، جگہ جگہ چیری، خوبانی اور آلو بخارے سے لدے درخت اور رنگ برنگے پھول۔ یہاں گرمیوں میں موسم اتنا ٹھنڈا ہوتا ہے کہ اکثر پنکھوں کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔

زرمینہ اسی علاقے کی رہنے والی ہیں۔ ان کی عمر 20 سال ہے۔ زرمینہ نے چند ماہ پہلے خود کشی کی کوشش کی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ زرمینہ فرضی نام ہے اور خاتون کی اصل شناخت کو ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے۔

’مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیسے میں نے بندوق ڈھونڈی اور کیسے اس میں کارتوس ڈالے اور خود کو گولی مار لی۔ میرا دماغ ماؤف ہوگیا تھا۔ مجھے اس وقت ہوش آیا جب میں ہسپتال میں تھی۔اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں نے کیا کر دیا۔‘

زرمینہ نے بتایا کہ جب ان کے والد کاانتقال ہوا تو ان کی عمر 13 برس تھی۔گھر میں کوئی کمانے والا نہیں تھا۔ بھائی چھوٹے تھے۔ حالات ایسے ہوئے کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئیں۔ ماں نے علاج کیا کروانا تھا 15 سال کی عمر میں ان کی شادی کر دی۔
زرمینہ نے بتایا
’میرا شوہر ہے بیروزگار سہی لیکن بہت اچھا ہے۔ میں پریشان تھی تو صرف اپنی بیماری کی وجہ سے۔ مجھے لگتا تھا کہ میں سب پر بوجھ ہوں اسی لیے سوچا کہ خود کو ختم کر لوں۔‘

صرف زرمینہ ہی نہیں غذر کی خواتین میں خود کشی کی شرح غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔ یہاں کی کل آبادی ڈیڑھ لاکھ ہے جبکہ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق یہاں اوسطاً سالانہ 20 خواتین اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہی ہیں۔

اسرار الدین اسرار گلگت بلتستان کے لیے انسانی حقوق کمیشن کے رابطۂ کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں سنہ 1999 سے خواتین میں خود کشی کا رجحان شروع ہوا۔ سنہ 2004 میں یہ عروج پر تھا۔ کچھ عرصہ اس میں کمی دیکھنے میں آئی لیکن اب پھر اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیسے میں نے بندوق ڈھونڈی اور کیسے اس میں کارتوس ڈالے اور خود کو گولی مار لی۔ میرا دماغ ماؤف ہوگیا تھا۔ مجھے اس وقت ہوش آیا جب میں ہسپتال میں تھی۔اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں نے کیا کر دیا؟
زرمینہ
’پاکستان کی 18 کروڑ آبادی میں تقریباً 52 فیصد خواتین ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس ملک سے خواتین کی خودکشی کے لگ بھگ 900 کیس رپورٹ ہوئے۔ اس تناسب سے دیکھا جائے تو ڈیڑھ لاکھ آبادی کے غذر میں سالانہ 20 خواتین کی خودکشی تشویشناک ہے۔‘

لیکن آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ حاجدہ پروین ایک سماجی کارکن ہیں۔ وہ خود بھی غذر کی رہنے والی ہیں۔ جب بھی ان کے علاقے میں کوئی خاتون خودکشی کرتی ہے وہ پولیس سٹیشنوں، خاتون کے رشتے داروں، محلے داروں اور عینی شاہدین سے معلومات اکٹھی کرتی ہیں۔

حاجدہ کہتی ہیں:
’اس کے کئی پہلو ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ ڈپریشن کی وجہ سے لڑکی نے خودکشی کر لی۔ وہ ذہنی مریضہ تھی۔ ہمارے پاس گلگت بلتستان میں خواتین کے لیے نفسیاتی علاج کا ادارہ موجود نہیں ہے۔ پھر بہت سی خواتین گھریلو تشدد کا شکار بھی ہیں۔ اور ایسا کوئی فورم نہیں جہاں ان کی شنوائی ہو۔ اگر وہ پولیس سٹیشن جائیں تو رسوا ہوجاتی ہیں۔‘

غذر میں خواتین میں خواندگی کی شرح گلگت اور پاکستان کے دوسرے حصوں سے زیادہ ہے۔ شعور اور سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود بھی وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیوں ہو جاتی ہیں؟

سعدیہ دانش گلگت بلتستان میں خواتین کی ترقی اور بہبود کی وزیر رہ چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’جب آپ کی پڑھی لکھی خاتون کی شادی کسی غیر تعلیم یافتہ شخص سے کر دیں تو ایسی صورتِ حال پیدا ہونے کے امکانات تو رہتے ہیں۔ غذر میں ڈپریشن بھی کافی ہے لوگ خودکشی کو بہت آسان سمجھتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی زندگی ختم کرنا ان کے لیے معنی نہیں رکھتا۔‘

لیکن ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سب واقعات خودکشی نہیں ہوتے بلکہ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر کے اسے خود کشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔
پاکستان کی 18 کروڑ آبادی میں تقریبا 52 فیصد خواتین ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس ملک سے خواتین کی خودکشی کے لگ بھگ 900 کیسوں رپورٹ ہوئے۔ اس تناسب سے دیکھا جائے تو ڈیڑھ لاکھ آبادی کے غذر میں سالانہ 20 خواتین کی خودکشی تشویشناک ہے۔

گلگت بلتستان کے لیے انسانی حقوق کمیشن کے رابطۂ کار اسرار الدین اسرار
اسرار الدین اسرار کہتے ہیں: ’اب تک ہمارے علم میں جو بات آئی ہے وہ یہ کہ ان میں سے تقریباً 20 فیصد واقعات خود کشی کے بجائے قتل ہوتے ہیں اور پولیس ان کیسوں کی تفتیش ٹھیک طریقے سے نہیں کرتی۔‘

سعدیہ دانش بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’کچھ ایسے واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں بیٹیوں کو قتل کر کے دبا دیا جاتا ہے لیکن اگر قتل بیٹے نے یا خاندان کے کسی اور فرد نے کیا ہو تو اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور اسے خودکشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔‘

غذر میں خواتین کی خود کشی کے بارے میں کوئی باقاعدہ تحقیق تو موجود نہیں، پر ایک تاثر یہ ہے کہ یہاں انھیں تعلیم تو دے دی گئی ہے پر فیصلہ سازی کے اختیارات نہیں۔


0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی