کرپشن الزامات اور رد عمل: اسد اللہ غالب....انداز جہاں


جب ریاست کا ایک ادارہ نتائج کی پروا کئے بغیر کسی بلیم گیم میں الجھتا ہے تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو اب سامنے ہے۔

مگر شکر یہ ہے کہ ن لیگ کی قیادت نے وہ انداز اختیار نہیں کیا جو پیپلز پارٹی نے کیا ۔ پیپلز پارٹی کا لب ولہجہ جارحانہ تھا اور ن لیگ نے دفاعی انداز اپنایا۔ پنجاب کے چیف منسٹر میاں شہباز شریف نے ہنگامی پریس بریفنگ میں صفائی پیش کی کہ ان کے خاندان نے اپنے تمام قرضے ادا کئے، ان پر نادہندگی کاالزام غلط ہے۔بینکو ں کی پائی پائی ادا کی گئی۔اصل زر کے ساتھ سترہ سال کا مارک اپ اور کاسٹ آف فنڈنگ اور دیگر چارجز کی ادائیگی کی ملک مںکوئی اور مثال نہیں ملتی، چیف منسٹر نے البتہ اپنی پرانی تھیوری کو دہرایا ہے کہ نرم انقلاب نہ آیا تو خونی انقلاب آئے گا۔وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے دوسرے روز بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ ایک ریاستی ادارے نے بلیم گیم شروع کر دی ہے جبکہ ملک میں کرپشن کا ذمہ دار یہی ادارہ ہے جس نے کرپشن کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی نہیں کی۔بہتر یہ ہے کہ اب اس ادارے کا حتساب کیا جائے ا ور اس کی نااہلی کی سزااسے دی جائے نہ کہ سیاستدانوں کا چہرہ کالا کیا جائے۔

نیب کی فہرست منظر عام آنے پر کوئی غبی سے غبی شخص بھی یہ بخوبی اندازہ کر سکتا تھا کہ حکومت کے مقابلے میں کوئی ا ور ادارہ حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، یہی نکلے گا جو اس وقت سامنے آ گیا ہے۔ نیب کا ادارہ حکومت کے ماتحت ہے، اسے تفتیش میں مکمل خود مختاری ضرور حاصل ہو گی مگر یہ اس کا وہم ہو گا کہ اسے ایک متوازی حکومت کا درجہ حاصل ہے۔کسی بھی ملک میں ایک ہی حکومت چل سکتی ہے، ایک سے زیادہ نہیں مگر پاکستان طوائف الملوکی کی طرف بڑھتا دکھائی دیتا ہے، ایک زمانہ تھا کہ راجواڑے خود مختاری کا اعلان کر دیتے تھے، اب یہ کام ریاستی اداروںنے سنبھال لیا ہے۔میں نیب کے اقدام کو کراچی میں رینجرز کے اقدام سے مشابہہ نہیں سمجھتا،ا س لئے کہ کراچی کا آپریشن قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے، جس پر تمام ملکی قوتیں متفق ہیں۔ مگر وہاں جب کسی ایک یا دوسری سیاسی جماعت کے گریبان تک ہاتھ پہنچا تو تلملاہٹ کااظہار کیا گیا، لندن سے خطاب بھی دھواں دار تھا، اور زرداری نے بھی واضح طور پر فوج کو للکارا۔ ملک کے کسی طبقے نے ان دونوںپارٹیوں کے رد عمل کو نہیں سراہا، یہاں تک کہ زرداری کو بھی اپنی غلطی کااحساس ہوا اور وہ ملک چھوڑ گیا۔ اگر کسی کو اس کے خلاف ذاتی کد ہوتی تو وہ باہر نہیں جاسکتا تھا۔مگر اور لوگ بھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ابھی اس سیاسی زلزلے کے آفٹڑ شاکس سے سنبھلنے نہ پائے تھے کہ نیب نے سونامی برپا کردیا۔اس کے تلاطم کی لپیٹ میں وفاق اور پنجاب میں حکمران پارٹی اور اس کی قیادت آگئی اور یہ ایک غیر معمولی صورت حال تھی، امریکہ میں صدر بل کلنٹن کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا مگر ہر حکمران پارٹی کی طرح وہ اس سے صاف بچ نکلا، صدر نکسن کا معاملہ اور تھا، اس نے اپنی قوم سے جھوٹ بولا تھا اور اس کے ضمیر نے اسے مستعفی ہونے پر مجبور کیا، زرداری حکومت کو ڈانواں دول کرنے کی کسی نے کسر نہ چھوڑی، میڈیا کے طوطے روز حکومت گرنے کی تاریخیں دیتے تھے، عدلیہ اس حکومت کے خون کی پیاسی تھی، ایک وزیر اعظم کو گھر بھی بھجوا دیا اور ان پر الف لیلوی مقدمے قائم کر دیئے، فوج کے ساتھ ریمنڈ ڈیوس، کیری لوگر بل، سانحہ ایبٹ ا ٓباد اور میمو گیٹ کے تنازعے کھڑے ہوئے ، عدلیہ نے پارلیمنٹ پر بھی چڑھائی ا ور من پسند آئینی ترمیم کروا کر چھوڑی مگر حکومت آخر حکومت ہوتی ہے، خواہ نظام سقے کی بھی کیوں نہ ہو، وہ چام کے دام چلا کر دم لیتا ے اور زرداری نے بھی اپنی ٹرم پوری کر کے چھوڑی۔

آج حالات اس قدر دگر گوں نہیں ہیں کہ لوگ مارشل لا کی دعائیں مانگ رہے ہوں ، اس کا اندازہ خود فوج کو بھی ہو گا، کو دیتا کے لئے موزوں حالات اور وجوہات نہیں ہیں، اور نہ فوج کا کوئی ایساارادہ دکھائی دیتا ہے۔ آرمی چیف کا زیادہ وقت تو ملکی سیکورٹی کے لئے عالمی حمائت حاصل کرنے پر صرف ہوتا ہے اورا س کے کئے بھی وہ طعنے سنتے ہیں کہ ملک کی خارجہ اور دفاعی پالیسی انہوںنے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے، ہر کوئی جانتا ہے کہ فوج ملکی مفاد میں ایک معاون اور مددگار ادارے کے تحت متحرک ہے ، عدلیہ بھی کسی وقت فعالیت کا مظاہرہ کرتی ہے، اور سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ دو بدو ہو جاتے ہیں مگر پھر درمیانی راستہ نکل آتا ہے۔ اب نیب نے بھی رد عمل دیکھ لیا ہے ، میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ یہ رد عمل ویسا نہیں جیسے زرداری نے جارحانہ لب ولہجہ اختیار کیا، میاں شہباز شریف نے تو صفائی پیش کی ، کوئی کسی کو آنکھیں نہیں دکھائیں ، اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی نہیں دی، فاٹا سے کراچی تک پہیہ جام کرنے کی دھمکی بھی نہیں دی، بس نیب کو آئینہ دکھایا کہ اس نے مشرف دور کی تیار کردہ فائلیںنکال کر اخبارات میںہیڈ لائنیں لگوا لیں، اس سے کسی کی انا کی تسکین ہو گئی ہو گی تو اسے اپنے بڑھتے ہوئے قدم، یہیںروک لینے چاہیئں۔پاکستان ایک جدید دور کی مہذب قانون پسند ریاست ہے اور مزید برآں یہ ایٹمی قوت سے لیس ہے، اس ملک میں ذرا سی چنگاری ہمارے لئے زہر قاتل بن سکتی ہے اوررہا سہا امن غارت کر سکتی ہے، یہ ملک خدا کا عطیہ ہے، اس کو بلڈوز کرنے کی کوشش نہیںہونی چاہئے، آدھاملک تو ہم گنو ابیٹھے ا ور انہی حماقتوں کی وجہ سے گنوا بیٹھے، دشمن بھی تاک میں ہے ، اس نے پہلے بھی ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا ، اب بھی موقع ضائع کیوں کرے گا۔

مگرا سکا یہ مطلب بھی نہیں کہ کرپشن اور گھنائونے جرائم کو سند جواز عطا کر دی جائے، میرا پہلے بھی یہ موقف تھا کہ آج ہم عہد کر لیں کہ آیندہ کسی برائی خاص طور پر کرپشن کو برداشت نہیں کریں گے تو اگلے روز کرپشن کا جو پہلا مقدمہ کسی تھانے، یا نیب یا ایف آئی اے کے دفتر میں درج ہو تو اس کا فیصلہ آٹھ روز کے اند کر لیا جائے اور جس طرح سعودیہ میںہر جمعے کی نماز کے بعد سر قلم کئے جاتے ہیں،جس طرح جنرل ضیا نے معصوم پپو کے قاتلوں کو کیمپ جیل کے دروازے پرسر عام تختہ دار پر لٹکایا تھا، اسی طرح ہم بھی اپنے مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دیں اور اپنے رسول ﷺ کے ا س فرمان پر عمل کر دکھائیں کہ میری بیٹی بھی چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ بھی قلم کر دیا جائے گا،ہماری راہ نجات اسی میں ہے ورنہ لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ ،ایک کی دم والا حال ہو گا، میںنے خدا نخواستہ بھی نہیںکہا کیونکہ کوئی ہمیں اس حشر سے بچا نہیں سکتا۔

میں بلیم گیم کو رو پیٹ رہا تھا مگر نیب نے تو خیبر پی کے میں ایک وزیر کو کرپشن کے الزام میں پکڑ کر اندر کر دیا ہے، بچو بھئی بچو!!


بشکریہ نوائے وقت 

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی