یہ کہانی ڈاکٹر ضیاء الدین احمد سے شروع ہوتی ہے،درمیان میں کراچی کے ایک لندن بیسڈ بزنس مین آتے ہیں اور پھر یہ کہانی تفتیشی اداروں،عدالتوں اور جیلوں کے پھاٹکوں کی طرف دوڑ پڑتی ہے لیکن جیلوں،عدالتوں،تفتیشی اداروں اور لندن بیسڈ بزنس مین سے پہلے بہرحال ڈاکٹر ضیاء الدین احمد آتے ہیں۔
ہم اگر علی گڑھ یونیورسٹی کو ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ سے نکال دیں تو تاریخ میں آنسوؤں،آہوں اور سینہ کوبیوں کے سوا کچھ نہیں بچتا،برصغیر کے مسلمان اگر آج آزاد ہیں،یہ اگر آج ایک خوش حال اور بے خوف زندگی گزار رہے ہیں تو اس کا نوے فیصد کریڈٹ سرسید احمد خان کو جاتا ہے۔
سرسید احمد خان اگر جھولی پھیلا کر،بازار حسن میں طوائفوں کے سامنے ناچ کراور زمینداروں، جاگیرداروں، نوابوں اور مسلمان تاجروں کی ٹھوڑی پکڑ کر چندہ جمع نہ کرتے،وہ 1875ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد نہ رکھتے تو پاکستان آج بھی مسلمانوں کے خوابوں تک محدود ہوتا اور ہم شودروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہوتے،علی گڑھ یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کی تقدیر میں تبدیلی کا پہلا سنگ میل تھی،یہ پہلی حقیقت تھی،دوسری حقیقت یہ تھی،یہ یونیورسٹی بنائی سرسید نے تھی لیکن اسے چلانے کا اعزاز ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کو حاصل ہوا،ڈاکٹر صاحب 1877ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئے،بارہ سال کی عمر میں علی گڑھ میں داخل ہوئے،بے انتہا ذہین انسان تھے۔
یونیورسٹی نے انھیں بی اے کے بعد ہی لیکچرار بھرتی کر لیا یوں وہ پڑھتے بھی تھے اور پڑھاتے بھی تھے،ڈاکٹر صاحب نے بعد ازاں کلکتہ یونیورسٹی اور احمد آباد یونیورسٹی سے ایم اے کیے،وہ ہندوستان کی تاریخ کے پہلے دیسی باشندے بھی تھے جنھیں کیمبرج یونیورسٹی نے سر آئزک نیوٹن اسکالر شپ دیا،وہ کیمبرج یونیورسٹی کے طالب علم بھی رہے اور انھوں نے جرمنی،فرانس،اٹلی اور جامعۃ الازہر میں بھی تعلیم حاصل کی،وہ تین مختلف ادوار میں علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے،انھیں طویل مدت تک علی گڑھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
وہ یوپی کی صوبائی اسمبلی کے رکن بھی بنے،انھوں نے وفاقی سطح پر بھی الیکشن لڑے،وہ ریاضی دان تھے،انگریزی،اردو،عربی اور فارسی کے عالم تھے،وہ فزکس اور کیمسٹری کے نباض تھے،انھوں نے علی گڑھ میں مسلمانوں کا پہلا میڈیکل کالج بھی قائم کیا اور وہ ایم اے او کالج کے پرنسپل بھی رہے،ملکہ نے ان کی خدمات کے صلے میں انھیں 1938ء میں سر کا خطاب دیا،یہ خطاب کتنا بڑا تھا‘آپ اس کا اندازہ سرسید احمد خان،سر علامہ اقبال اور سر کریم آغا خان سے لگا لیجیے،ان تینوں مشاہیر کو بھی اس خطاب سے نوازا گیا تھا،سر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد دسمبر1947ء کو لندن میں انتقال کر گئے۔
ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے تجمل حسین اور بہو ڈاکٹر اعجاز فاطمہ نے ان کے مشن کا جھنڈا اٹھا لیا،انھوں نے کراچی میں ڈاکٹر ضیاء الدین گروپ آف ہاسپٹلز کی بنیاد رکھی،گروپ میں آج پانچ اسپتال اور ضیاء الدین یونیورسٹی ہے جس کے تحت نو کالجز کام کر رہے ہیں ،پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اور مشیر ڈاکٹر عاصم حسین سر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کے پوتے اور ڈاکٹر تجمل حسین اور ڈاکٹر اعجاز فاطمہ کے صاحبزادے ہیں،ڈاکٹر عاصم حسین کیڈٹ کالج پٹارو کے ان چند طالب علموں میں بھی شمار ہوتے ہیں جو آصف علی زرداری کے کلاس فیلوز یا دوست تھے۔
یہ فوج میں بھرتی ہوئے لیکن جلد ہی فوج چھوڑ کر ڈاؤمیڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا،ڈاکٹر عاصم نے ایم بی بی ایس بھی کیا اور یورپ میں بھی تعلیم حاصل کی،آصف علی زرداری جب عملی سیاست میں آئے تو ڈاکٹر عاصم بھی ان کے ساتھ سیاست میں آ گئے،یہ زرداری صاحب کے ذاتی معالج بھی رہے،پٹرولیم جیسی سونے کی کان کے مشیر بھی،نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے چیئرمین بھی اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے کرتا دھرتا بھی۔ ہم یہ کہانی اب چند لمحوں کے لیے روکتے ہیں اور کراچی کے لندن بیسڈ بزنس مین کی طرف آتے ہیں۔
آج سے دس سال پہلے کراچی کی شاہراہ فیصل پر سرفراز مرچنٹ نام کا فرنیچر کا ایک تاجر ہوتا تھا،یہ ایک عام درمیانے درجے کا بزنس مین تھا،یہ گم نام بھی تھا لیکن پھر اس نے اداکارہ نیلی کے ساتھ شادی کر لی اور یوں اس کا نام اخبارات میں آنے لگا،نیلی کی وجہ سے اس کا کراچی کے ایک ڈان سے جھگڑا ہوا اور یہ ملک سے فرار ہو گیا،یہ دوبئی میں سیٹل ہو گیا،2008ء میں حارث اسٹیل مل اور بینک آف پنجاب کا ایشو سامنے آیا تو اس میں سرفراز مرچنٹ کا نام بھی آ گیا۔
اس پر الزام تھا،اس نے ججوں کے نام پر حارث اسٹیل مل کے مالک شیخ افضل سے دوکروڑ اسی لاکھ روپے لیے،عدالتیں ایکٹو ہوئیں،نیب اور ایف آئی اے آگے بڑھی اور سرفراز مرچنٹ کو انٹرپول کے ذریعے پاکستان لانے کی کوششیں شروع ہوگئیں لیکن کوششیں کامیاب نہ ہوئیں،کیوں؟ کیونکہ ڈاکٹر عاصم سرفراز مرچنٹ کے دوست تھے،سرفراز مرچنٹ اس وقت تک اتنا امیر ہو چکا تھا کہ وہ پارک لین لندن کے انتہائی مہنگے ہوٹل میریٹ میں مسلسل گیارہ سال مقیم رہا،وہ ہوٹل کے سوئٹ میں رہتا تھا،ڈاکٹر عاصم جب بھی لندن جاتے تھے،یہ اسی ہوٹل میں سرفراز مرچنٹ سے ملتے تھے۔
سرفراز مرچنٹ کا دوسرا دوست انیس ایڈووکیٹ تھا،انیس ایڈووکیٹ ایم کیو ایم کے رابطہ کمیٹی کے ممبر رہے ہیں،یہ الطاف حسین کے قریبی ترین دوستوں میں بھی شمار ہوتے ہیں،لندن میں الطاف حسین کے خلاف جتنے مقدمات چل رہے ہیں،ان میں انیس ایڈووکیٹ بھی دوسرے ملزمان محمد انور ،افتخار قریشی،سرفراز احمداور طارق میر کے ساتھ زیر تفتیش ہیں،لندن میں 16 ستمبر 2010ء کو جب ڈاکٹر عمران فاروق قتل ہوئے تو اس دن بھی ڈاکٹر عاصم،انیس ایڈووکیٹ اور سرفراز مرچنٹ نے میریٹ ہوٹل پارک لین میں اکٹھے لنچ کیا۔
لندن پولیس نے جون 2013ء میں الطاف حسین کے گھر اور دفتر میں چھاپہ مارا اور دونوں جگہوں سے پاؤنڈ برآمد ہو گئے،الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بن گیا،کیس بننے کے چند دن بعد سرفراز مرچنٹ نے یہ بیان دے دیا ’’ایم کیو ایم کے سیکریٹریٹ سے برآمد ہونے والی رقم کا ایک بڑا حصہ میرا تھا اور یہ میں نے ڈونیشن دیا تھا‘‘اس بیان کے ساتھ ہی سرفراز مرچنٹ بھی انکوائری کا حصہ بن گیا۔
مرچنٹ نے بعد ازاں ایم کیو ایم کے اکاؤنٹ میں ساڑھے چار لاکھ پاؤنڈ بھی جمع کرائے،اسکاٹ لینڈ یارڈ نے جب مرچنٹ سے اس رقم کے بارے میں پوچھا تو یہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا اور یوں اس کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا،اسکاٹ لینڈ یارڈ مرچنٹ کے انیس ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر عاصم کے ساتھ تعلقات سے بھی آگاہ ہے اور یہ بھی جانتی ہے سرفراز مرچنٹ پابندی کے باوجود جعلی پاسپورٹ پر پاکستان آتا رہا اور اسے آتے اور جاتے وقت خصوصی پروٹوکول بھی دیا جاتا تھا،یہ کراچی میں ڈاکٹر عاصم کا مہمان ہوتا تھا،یہ روزانہ ان کے اسپتال جاتا تھا اور اسپتال کی آخری منزل پر ڈاکٹر عاصم کا دفتر اس کا ٹھکانہ ہوتا تھا،یہ دونوں کاروباری ملاقاتیں بھی اسی جگہ کرتے تھے،اب سوال یہ ہے۔
کیا ڈاکٹر عاصم،سرفراز مرچنٹ اور انیس ایڈووکیٹ تینوں ایک ہی لڑی کے موتی ہیں اور یہ لڑی بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں ہیں،یہ فیصلہ سرے دست ممکن نہیں،کیوں؟ کیونکہ لندن اور کراچی دونوں جگہوں پر بیک وقت تفتیش چل رہی ہے،اس تفتیش کا نتیجہ کہانی کو پوری طرح کھول دے گا تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے اپنے حلقوں میں یہ سرگوشیاں ہیں،پاکستان پیپلز پارٹی کو افہام و تفہیم کی سیاست کی ایک قیمت ادا کرنا پڑتی تھی۔
یہ قیمت بعض اوقات روزانہ،بعض اوقات ہفتہ وار اور بعض اوقات ماہانہ ہوتی تھی اور اس قیمت کا چینل ڈاکٹر عاصم،سرفراز مرچنٹ اور انیس ایڈووکیٹ تھے،یہ سرگوشی بھی عام ہے،لیاری گینگ کے ملزمان نے اعتراف کیا،ہمیں ڈاکٹر عاصم کے اسپتال کی ایمبولینس میں اسلحہ سپلائی کیا جاتا تھا،ڈاکٹر عاصم کے اسپتال میں گینگ وار کے زخمیوں کا علاج بھی ہوتا تھا اور حکیم سعید کے قاتلوں کو بھی اسی اسپتال میں پناہ دی گئی تھی،یہ سرگوشی بھی عام ہے،ڈاکٹر عاصم کا نام سرفراز مرچنٹ نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سامنے لیا اور ان کی گرفتاری کی لیڈ کراچی سے نہیں بلکہ لندن سے آئی تھی اور یہ سرگوشی بھی عام ہے،ڈاکٹر صاحب ایک گھنٹہ دباؤ برداشت نہیں کر سکے اور انھوں نے سب کچھ اگل دیا،ان سرگوشیوں میں کتنا سچ اور کتنی ملاوٹ ہے۔
اس کا فیصلہ وقت کرے گا تاہم ڈاکٹر عاصم کی اس کہانی کے دو پہلو بہت ’’شاکنگ‘‘ہیں،پہلا پہلو پاکستان پیپلز پارٹی کا رد عمل ہے،آصف علی زرداری نے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر طبل جنگ بجا دیا لیکن پارٹی کے دیگر قائدین اور سابق وزراء خوش ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جن کی سیاست کو ڈاکٹر عاصم جیسے پیرا شوٹرز نے تباہ کر دیا تھا،کون نہیں جانتا ڈاکٹر عاصم نے ایک دن میں 19 میڈیکل کالج منظور کرا دیے،کون نہیں جانتا 1500 لوگوں کو غیر قانونی طور پر بھرتی کیا گیا اور کون نہیں جانتا یہ اقتدار کے دنوں میں اس قدر طاقتور تھے کہ یہ فون اٹھا کر کسی بھی وزیر کی بے عزتی کر دیتے تھے چنانچہ آج بے عزتی کروانے والے تمام لوگ اس گرفتاری پر خوش ہیں اور یہ اس کیس کو منطقی نتیجے تک پہنچتا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
دوسرا شاکنگ پہلو دولت کی حرص ہے،آپ نے اربوں روپے کما لیے لیکن وہ رقم آج کہاں ہے؟ یہ دوسرے ملکوں میں پڑی ہے،یہ رقم اب ضبط ہو جائے گی یا پھر آپ کے دوست،عزیز یا رشتے دار کھا جائیں گے،آپ آج خود جیل میں ہیں،خاندان سڑکوں پر رل رہا ہے،مستقبل میں بھی عدالتیں ہوں گی اور وکیل اور مقدمے ہوں گے اور جیل کی کوٹھڑیاں ہوں گی چنانچہ پھر اس ساری بے ایمانی کا کیا فائدہ ہوا؟ آپ نے سر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کا نام بھی رول دیا،ڈاکٹر تجمل حسین اور ڈاکٹر فاطمہ جیسے والدین کو بھی شرمندہ کر دیا،آپ ایک لمحے کے لیے سوچئے،آپ حراست میں ہیں،دوست بھاگ گئے ہیں،دولت باہر پڑی ہے اور سابق کولیگ آپ کی گرفتاری پر خوش ہیں چنانچہ آپ نے کیا پایا،آپ نے کیا کمایا؟ کاش! آپ اپنے آپ اور آپ کے ساتھی آپ کو دیکھ پاتے،کاش یہ اور آپ یہ جان پاتے دنیا میں اقتدار اور دولت سے بڑا کوئی سراب نہیں اور اختیار سے بڑا کوئی بے وفا نہیں۔
بشکریہ ایکسپریس
ایک تبصرہ شائع کریں