بی بی سی اردو سے
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان سمیت 34 اسلامی ممالک نے سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔
اس اتحاد میں مصر، قطر اور عرب امارات جیسے کئی عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی، ملیشیا، پاکستان اور افریقی ممالک شامل ہیں۔
سعودی خبر رساں ایجنسی ایس پی اے پر ان ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں کہا گيا ہے کہ ’جن ممالک کا یہاں ذکر کیا گیا ہے انھوں نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، آپسی روابط اور ملٹری آپریشن کی غرض سے اس کا مشترکہ آپریشن سینٹر ریاض میں ہو گا۔‘
بیان میں اسلامی ممالک کو شدت پسندی میں ملوث ہر اس تنظیم اور گروہ کی تخریب کاری سے تحفظ کو فرض قرار دیا گیا ہے جو زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں اور جن کا مقصد معصوم افراد میں دہشت پھیلانا ہے، چاہے اس کا کوئی بھی نام ہو یا کسی بھی مسلک سے تعلق ہو۔
پاکستان، متحدہ عرب امارات، بحرین، بنگلہ دیش، ترکی، چاڈ، تیونس، ,ٹوگو، بینن، سوڈان، صومالیہ، سینگال، قطر، فلسطین، گینی، گبون، مراکش، مصر، مالی، مالدیپ، لیبیا، موریتانیہ، نائجر، نائجیریا، یمن، کویت، کمروز، جبوتی، لبنان، سیرالیون، اردن۔
ایران اور سعودی عرب خلیجی ممالک میں اپنے مختلف مفاد کے سبب ایک دوسرے کے حریف ہیں اس لیے اس فہرست میں شیعوں کی اکثریت والے ملک ایران کا نام شامل نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی عرب کے وزیر دفاع 30 سالہ شہزادہ محمد بن سلمان نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ اس مہم کے ذریعے عراق، شام، لیبیا مصر اور افغانستان جیسے ممالک میں شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو مربوط کیا جائے گا۔
امریکہ خطے میں دولت اسلامیہ جیسی شدت پسند تنظیم سے نمٹنے کے لیے خلیجی ممالک پر مزید فوجی اقدامات کرنے اور مدد کرنے کے لیے زور دیتا رہا ہے۔
تاہم انھوں نے ایسی کوئی اہم بات نہیں بتائی جس سے یہ معلوم ہو سکتا کہ آيا یہ فوجی مہم کس طرح عمل میں لائی جائےگي۔
ان کا کہنا تھاکہ ’شام اور عراق میں آپریشن کے لیے اہم طاقتوں اور عالمی اداروں کے ساتھ عالمی سطح کے روابط استوار کیے جائیں گے۔ اس جگہ پر ہم قانونی جواز کے ساتھ عالمی برادری کے ساتھ روابط کے بغیر یہ آپریشن انجام نہیں دے سکتے۔‘
سعودی عرب کے وزیر دفاع محمد بن سلمان نے صحافیوں کو بتایا کہ اس مہم کے ذریعے شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو مربوط کیا جائے گا
ان سے جب پو چھا گیا کہ کیا یہ نیا فوجی اتحاد صرف دولت اسلامیہ پر مرکوز ہوگا تو محمد بن سلمان نے کہا نہ صرف یہ بلکہ ’ہمارے سامنے جو بھی دہشت گرد تنظیم ابھرے گی، ہم اس کا سامنا کریں گے۔‘
سعودی عرب اور اس کے پڑوسی خلیجی ممالک کا اتحاد گذشتہ کئی ماہ سے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائیاں کر رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں جس طرح سے دولت اسلامیہ نے مغربی مقامات کو نشانہ بنایا ہے اس کے بعد سے امریکہ نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ اس فوجی طاقت کا مناسب استعمال دولت اسلامیہ کے خلاف ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
منگل کے روز سے ہی اقوام متحدہ کی نگرانی میں یمن میں جنگ بندی کا نفاذ ہونے والا ہے اور ممکن ہے کہ ریاض کے لیے یہ اچھا موقع ہو کہ وہ اب اپنی توجہ شمالی سرحدوں کی طرف مرکوز کر سکے۔
اس اتحاد میں مصر، قطر اور عرب امارات جیسے کئی عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی، ملیشیا، پاکستان اور افریقی ممالک شامل ہیں۔
سعودی خبر رساں ایجنسی ایس پی اے پر ان ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں کہا گيا ہے کہ ’جن ممالک کا یہاں ذکر کیا گیا ہے انھوں نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، آپسی روابط اور ملٹری آپریشن کی غرض سے اس کا مشترکہ آپریشن سینٹر ریاض میں ہو گا۔‘
بیان میں اسلامی ممالک کو شدت پسندی میں ملوث ہر اس تنظیم اور گروہ کی تخریب کاری سے تحفظ کو فرض قرار دیا گیا ہے جو زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں اور جن کا مقصد معصوم افراد میں دہشت پھیلانا ہے، چاہے اس کا کوئی بھی نام ہو یا کسی بھی مسلک سے تعلق ہو۔
پاکستان، متحدہ عرب امارات، بحرین، بنگلہ دیش، ترکی، چاڈ، تیونس، ,ٹوگو، بینن، سوڈان، صومالیہ، سینگال، قطر، فلسطین، گینی، گبون، مراکش، مصر، مالی، مالدیپ، لیبیا، موریتانیہ، نائجر، نائجیریا، یمن، کویت، کمروز، جبوتی، لبنان، سیرالیون، اردن۔
ایران اور سعودی عرب خلیجی ممالک میں اپنے مختلف مفاد کے سبب ایک دوسرے کے حریف ہیں اس لیے اس فہرست میں شیعوں کی اکثریت والے ملک ایران کا نام شامل نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی عرب کے وزیر دفاع 30 سالہ شہزادہ محمد بن سلمان نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ اس مہم کے ذریعے عراق، شام، لیبیا مصر اور افغانستان جیسے ممالک میں شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو مربوط کیا جائے گا۔
امریکہ خطے میں دولت اسلامیہ جیسی شدت پسند تنظیم سے نمٹنے کے لیے خلیجی ممالک پر مزید فوجی اقدامات کرنے اور مدد کرنے کے لیے زور دیتا رہا ہے۔
تاہم انھوں نے ایسی کوئی اہم بات نہیں بتائی جس سے یہ معلوم ہو سکتا کہ آيا یہ فوجی مہم کس طرح عمل میں لائی جائےگي۔
ان کا کہنا تھاکہ ’شام اور عراق میں آپریشن کے لیے اہم طاقتوں اور عالمی اداروں کے ساتھ عالمی سطح کے روابط استوار کیے جائیں گے۔ اس جگہ پر ہم قانونی جواز کے ساتھ عالمی برادری کے ساتھ روابط کے بغیر یہ آپریشن انجام نہیں دے سکتے۔‘
سعودی عرب کے وزیر دفاع محمد بن سلمان نے صحافیوں کو بتایا کہ اس مہم کے ذریعے شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو مربوط کیا جائے گا
ان سے جب پو چھا گیا کہ کیا یہ نیا فوجی اتحاد صرف دولت اسلامیہ پر مرکوز ہوگا تو محمد بن سلمان نے کہا نہ صرف یہ بلکہ ’ہمارے سامنے جو بھی دہشت گرد تنظیم ابھرے گی، ہم اس کا سامنا کریں گے۔‘
سعودی عرب اور اس کے پڑوسی خلیجی ممالک کا اتحاد گذشتہ کئی ماہ سے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائیاں کر رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں جس طرح سے دولت اسلامیہ نے مغربی مقامات کو نشانہ بنایا ہے اس کے بعد سے امریکہ نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ اس فوجی طاقت کا مناسب استعمال دولت اسلامیہ کے خلاف ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
منگل کے روز سے ہی اقوام متحدہ کی نگرانی میں یمن میں جنگ بندی کا نفاذ ہونے والا ہے اور ممکن ہے کہ ریاض کے لیے یہ اچھا موقع ہو کہ وہ اب اپنی توجہ شمالی سرحدوں کی طرف مرکوز کر سکے۔
ایک تبصرہ شائع کریں