یونائیٹڈ انٹرنیشنل گروپ کے چئیرمین میاں شاہد نے کہا ہے کہ
زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جسے عدم استحکام سے بچانے کیلئے نتیجہ خیزاقدامات کی ضرورت ہے۔ ملک کے 45 فیصد سے زیادہ مزدور زراعت سے وابستہ ہیں جبکہ جی ڈی پی میں اسکا حصہ 25 فیصد سے زیادہ ہے مگر موسم پر انحصار اور سیلاب کی روک تھام کے نامناسب انتظام کی وجہ سے یہ شعبہ استحکام سے محروم ہے۔پاکستان کے مقابلہ میں انڈونیشیا کی39 فیصد لیبر زراعت سے وابستہ ہے، چین کی 35 فیصداور برازیل کے 15 فیصد مزدور اس شعبہ میں کام کرتے ہیں۔پاکستان میں گزشتہ سال کے سیلاب میں پچیس لاکھ افراد متاثر ہوئے جس میں سے ڈھائی لاکھ کسان تھے جنکی دس لاکھ ایکڑ فصل تباہ ہوگئی۔ میاں شاہد نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میں زرعی شعبہ کی شرح نمو 2.9 فیصد ہے جو انتہائی ناکافی ہے۔اس شعبہ میں کمرشلائیزیشن کی کمی ہے جو اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں رکاوٹ ہے جبکہ اسے مقامی اور بین الاقوامی منڈی میں مناسب قیمت، اسکے تحفظ کیلئے ایگریکلچر انشورنس، سستے قرضوں اور مداخل کی دستیابی، جعلی ادویات اور غیر معیاری بیجوں کا قلع قمع اور مناسب تربیت کا احتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ پانی کی بڑھتی کمی زراعت کیلئے بڑا خطرہ ہے جسے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آبی وسائل کی ترقی کیلئے مختص فنڈز میں کمی نہ کی جائے بلکہ اضافہ کی ضرورت ہے۔دریائے سندھ زرعی شعبہ کی 65 فیصد ضروریات پوری کرتا ہے جبکہ دریائے سندھ اپنا 80 فیصد پانی گلیشئیرز سے لیتا ہے جو انتہائی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ دینا میں دو ارب انسان زیر زمین پانی استعمال کر کے اسکے ذخیرے پر دباﺅ بڑھا رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں زیر زمین پانی کی سطح تین فٹ کم ہو چکی ہے اور اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو یہ سطح مزید گر جائے گی۔اگر نہری نظام کو بہتر بنایا جائے تو سالانہ آسی لاکھ ایکڑ فٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں