بھٹو زندہ ہیں؟ تھر میں خوراک نہ ملنے کی وجہ سےایک ماہ میں 50 بچے ہلاک

تھر (اردو وائس پاکستان رپورٹ 15 جنوری  2016)صحرائے تھر  دنیا کا  17 واں بڑا صحرا ہے۔ تھر کا 80 فیصد حصہ بھارت میں ہے باقی ماندہ پاکستان کے صوبہ سند ھ میں ہے۔  بھارتی حصہ 3 لاکھ 20 ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے  جس کا 60 فیصد راجستھان  میں ہے۔  جو گجرات ، پنجاپ اور ہریانہ تک پھیلا ہوا ہے۔ 

سندھ میں موجود صحرائے تھر  کا باقی ماندہ 20 فیصد حصہ جن حالات سے گزررہا ہے  اس کی مثال کہیں نہیں مل سکتی۔ ہر سال سینکڑوں بچے  خوراک کی کمی کی وجہ سے لقمہ اجل بنتے ہیں ۔  ستمبر 2015 میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں محض  54 دنوں میں تھر میں 115 بچے  مرچکے تھے۔  مقامی اخباروں میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ صرف دو ماہ کے اندر تھر میں 120 بچے مر چکے ہیں۔  ان حقائق کی روشنی میں اندازہ لگا یا جاسکتا ہے  کہ ایک سال میں   کتنے بچے مر چکے ہونگے۔

2016 کے آغاز سے لیکر اب تک تھر میں 50 بچے مر چکے ہیں اور کئی ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔  لیکن سندھ کی حکومت ہے کہ اپنی نااہلی ماننے کو تیار نہیں۔  گزشتہ سال کی اموات سے کچھ سبق سیکھ کرتھر کے غریب عوام کو خوراک  اور علاج کی سہولتیں دیتے تو آج تھر کے 50 بچے نہ مرتے۔ 

خوراک کا مسئلہ ایک طرف دوسری طرف بیمار اور حاملہ خواتین کو علاج کی سہولتیں بھی میسر نہیں۔  سندھ حکومت میں کرپشن اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے مگر تھر کے غریبوں کو دینے کے لئے پیسہ نہیں ۔  نہ جانے یہ لوگ  خوف خدا کریں گے۔ 



0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی