ڈاکٹر ظفرنیازی کی سچ ثابت ہوتی پیش گوئی۔ تحریر نصرت جاوید

ذوالفقار علی بھٹو جب راولپنڈی جیل کی کال کوٹھڑی میں
بیٹھے اپنی پھانسی کے لئے تیار ہورہے تھے تو اخباروں میں کبھی کبھار ڈاکٹر ظفر نیازی کا ذکر بھی آجایا کرتا تھا۔ مرحوم کوئی نمایاں سیاستدان ہرگز نہیں تھے۔ پیشے کے لحاظ سے دانتوں کے ڈاکٹر اور بھٹو صاحب ان کے بہت پرانے مریضوں میں سے ایک۔ اپنی قید کے دوران بھٹوکے دانتوں کی تکلیف سنگین ہوگئی تو عدالت کی اجازت سے ڈاکٹر نیازی کئی ہفتوں تک جیل میں ان کے علاج کے لئے جایا کرتے۔

دانتوں کا معالج چونکہ اپنے مریض کے ساتھ بہت وقت گزارتا ہے اس لئے رپورٹروں کی اکثریت اسلام آباد کے F-6میں واقع ڈاکٹر نیازی کے گھر اور کلینک کے لان میں اس سہ پہر بڑی تعداد میں جمع ہوجاتی جب معالج اپنے مریض کو دیکھنے گئے ہوتے۔

ڈاکٹر صاحب ایک روشن چہرے والے میانہ قدآدمی تھے۔ اپنے چہرے پر ایک خاص کٹ کی داڑھی کی وجہ سے اکثر فرانسیسی فلاسفروں اور دانشوروں جیسے نظرآتے۔ بہت دھیمی آواز اور شفیق لہجے والے ڈاکٹر نیازی بہت مہذب انسان بھی تھے۔ ان کے گھر والے اور ذاتی ملازمین رپورٹروں کے ہجوم کی چائے پانی سے تواضع میں مصروف رہتے۔

جیل سے واپس آنے کے بعد ظفر نیازی صاحب کے پاس مگر کوئی ’’خبر‘‘ موجود نہ ہوتی۔ رپورٹر انہیں کرید کرید کر بھٹو صاحب کے خیالات کے بارے میں پوچھتے رہتے اور وہ عاجزانہ مسکراہٹ کے ساتھ معالج اور مریض کے درمیان ہوئی گفتگو کی Privacyکا ذکر کرتے ہوئے جان چھڑانے میں مصروف رہتے۔

ذوالفقار علی بھٹو مگر ایک مجسم سیاستدان تھے۔ انہیں بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ جیل میں بند ہوتے ہوئے بھی وہ ڈاکٹر ظفر نیازی کی وساطت سے قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں بڑی توانائی سے موجود رہ سکتے ہیں۔ عالمی سیاسی اُفق پر ویسے بھی ان دنوں بہت ہلچل برپاتھی۔ افغانستان میں سردار دائود کے قتل کے بعد کمیونسٹوں کا ’’ثورانقلاب‘‘آچکا تھا، ایران میں امام خمینی کے پرستاروں نے تھرتھلی مچارکھی تھی اور مصر کے صدر سادات نے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرلیا تھا۔ بھٹو کے بدترین مخالفین بھی عالمی سیاست اور امور خارجہ کے معاملات پر ان کی رائے کو بہت اہمیت دیا کرتے تھے۔

اس تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر نیازی کو افغانستان ،مصر یا ایران میں برپا ہنگاموں کے بارے میں اپنی ملاقات کے دوران چست اور گہرے فقرے لکھ کردے دیتے۔ ان تمام فقروںکا حتمی مقصد پاکستان کے لوگوں کو یہ بتانا ہوتا تھا کہ سامراجی قوتوں نے عالم اسلام کو عدم استحکام کا شکار بنانے کے لئے ایک بہت بڑی گیم تیار کرلی ہے اور پاکستان میں جنرل ضیاء کی فوجی آمریت بھی اس گیم کا ایک کلیدی چہرہ ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی بتائی باتوں کا پاکستان کے سنسرزدہ اخباروں سے کہیں زیادہ بین الاقوامی میڈیا میں تذکرہ ہونا شروع ہوگیا۔ بھٹو صاحب کے ایسے چرچے کو روکنے کے لئے اسلام آباد پولیس کو ’’کچھ کرنے‘‘ کا حکم ملا۔ مقامی پولیس نے ڈاکٹر نیازی کے گھر چھاپہ مارکر شراب کی ایک بوتل’’برآمد ‘‘کرلی اور ایک بہت ہی شریف خاندان کا ایک انتہائی مہذب فرزند-ڈاکٹر ظفر نیازی- عادی مجرموں کی طرح عدالتوں میں پیش ہونا شروع ہوگیا۔ ایک انتہائی جونیئر رپورٹر ہوتے ہوئے میں ان کی ہر پیشی پر مقامی عدالت میں چلاجاتا اور انہیں باتوں میں مصروف رکھ کر کچھ حوصلہ دینے کی کوشش کرتا۔

کالم میں اختصار کی ضرورت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں باقی باتیں بھلاکر پہنچ جاتا ہوں لندن۔1980ء کا سال تھا اور ڈاکٹر نیازی وہاں جلاوطنی میں رہ رہے تھے۔ میں بھی مستقل بے روزگاری سے تنگ آکر وہاں سے ’’اعلیٰ تعلیم‘‘ حاصل کرنے کی لگن میں مبتلا تھا۔ صحافی دوستوں کی معرفت مجھے علم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے ’’عرب شیخوں‘‘ کے فراہم کئے سرمایے سے لندن کے مشہور پکاڈلی سرکس کے قریب ایک ’’شاندار دفتر‘‘ بنارکھا ہے۔ وہ اس دفتر میں بیٹھ کر امریکہ اور برطانیہ کے طاقتور لوگوں سے مل کر پیپلز پارٹی کے لئے لابی وغیرہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔

میں نے تھوڑی محنت کے بعد وہ دفتر دریافت کر ہی لیا تو بہت افسوس ہوا۔ پکاڈلی کے قریب ایک Jermyn Streetتھی۔ اس میں ایک بوسیدہ تین منزلہ عمارت کے سب سے آخری فلور پر ایک خستہ حال کمرہ تھا۔ سیڑھیوں کے ذریعے وہاں تک پہنچتے ہوئے سانس پھول جاتا تھا اور ڈاکٹر صاحب دل کا بائی پاس آپریشن کروانے کے بعد وہاں تک پہنچتے ہوئے نڈھال ہوجاتے۔

چند ملاقاتوں کے بعد مجھے پتہ یہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب کو یہ بوسیدہ کمرہ کسی پرانے دوست نے ناکارہ سمجھتے ہوئے ایک ایسا دفتر قائم کرنے کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے جہاں سے امریکہ اور برطانیہ کے کئی طاقتور افراد کو ایک بہت ہی پرانے ٹائپ رائٹر کے ذریعے چٹھیاں لکھی جاتی ہیں۔ ان چٹھیوں کا مقصد صرف اتنا تھا کہ یہ طاقتور افراد جنرل ضیاء کو کسی نہ کسی طرح آمادہ کریں کہ وہ بیگم نصرت بھٹو کو کینسر کی تشخیص اور علاج کے لئے بیرون ملک آنے کی اجازت دے دیں۔

ڈاکٹر نیازی کو ٹائپ کرنا نہیں آتا تھا۔ وہ دائیں ہاتھ کی شہادت کی اُنگلی سے ایک ایک لفظ ڈھونڈ کر اسے دباتے۔ میں نے تھوڑی جرأت کے بعد انہیں سمجھایا کہ ان کے خطوط کا مضمون ایک ہی ہوتا ہے۔ میں اسے جلدی سے ٹائپ کردیتا ہوں۔ اس ٹائپ شدہ خط کی اصل کے مطابق دِکھنے والی فوٹوں کاپیاں کروائی جاسکتی ہیں۔ وہ کروالی جائیں تو اس کے بعد یہ خط صرف مخاطب کا نام ٹائپ کرکے اسے بھجوایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس ’’نادر سوچ‘‘ کے بارے میں مرتے دم تک میرے مشکور رہے۔

ڈاکٹر صاحب نے طالب علمی کے کچھ سال لندن میں بھی گزارے تھے۔ دفتر سے فارغ ہوکر انہیں مختلف گلیوں سے گزرکر ٹیوب اسٹیشن تک پیدل جانا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہاں سے گزرتے ہوئے وہ اپنے ماضی کے ایام اور ان دنوں کے کرداروں کا ذکر کرتے ہوئے بہت مسرور محسوس کرتے۔

میںاکثر ان کے ساتھ ٹیوب اسٹیشن تک پیدل چلتا۔ مقصد میرا لیکن ان کے ماضی کو کریدنا ہرگز نہیں تھا۔ میں جان چکا تھا کہ بھٹو صاحب کے قابل اعتماد معالج ہوتے ہوئے ڈاکٹر ظفر نیازی نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے ڈاکٹر قدیر کی بہت سارے معاملات میں معاونت بھی کی تھی۔ اسی ضمن میں بہت اہم کردار بھٹو صاحب کے ملٹری سیکرٹری جنرل امتیاز کابھی تھااور ڈاکٹر نیازی کی ان کے ساتھ بھی دوستی بہت پرانی تھی۔ میرے اندر کا خود غرض رپورٹر درحقیقت ڈاکٹر صاحب کو بہلاپھسلا کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرف لے آتا۔

ہمارے ایٹمی پروگرام سے جڑی کہانیوں کے ذکر کے بعد آہستہ آہستہ میں یہ جاننے میں بھی مصروف ہوگیا کہ بھٹو صاحب کے انتہائی فیاض اور طاقت ور ’’عرب شیخوں‘‘ نے ان کے مشکل وقت میں کوئی اہم کردار کیوں ادا نہیں کیا تھا۔ ڈاکٹر نیازی اپنی مہذب طبیعت کی بنیاد پر اکثر جواب دینا ٹال دیتے۔

بیروت میں صابرہ اور شطیلہ کے مہاجر کیمپوں میں اسرائیلی فوج نے جب فلسطینی مہاجرین کا وحشیانہ قتل عام کیا تو عرب دُنیا کی اجتماعی بے حسی اور بے بسی نے بالآخر ڈاکٹر صاحب کو بھی حواس باختہ کردیا۔ وہ مختلف عرب رہ نمائوں سے بھٹو صاحب کی خلوت میں ہوئی باتوں کو میرے سامنے دہراتے رہے۔دُکھ اور غم کی شدت کے ایک مرحلے میں بہت جذباتی ہوکر انہوں نے میانوالی کے ٹھیٹھ لہجے میں ایک دن یہ اعلان بھی کردیا :’’میں تو شاید اس دنیا میں اس وقت موجود نہ ہوں مگر شاید تم وہ وقت ضرور دیکھو گے جب آج اپنی پٹرول کی وجہ سے آئی اچانک دولت پر مغرور ہوئے عرب‘ پسماندگی کے ہاتھوں مجبور ہوئے اپنے منہ میں ریت پھانکتے نظر آئیں گے‘‘

ایمانداری کی بات یہ بھی ہے کہ میں نے ڈاکٹر نیازی کی اس بات کو ایک دُکھی دل کی بددُعا سے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ منگل کی رات جب خبر آئی کہ تیل کے ایک بیرول کی قیمت اب 23ڈالر تک گرکر 20کی حد تک پہنچنے کو تیار ہورہی ہے تو مجھے وہ بہت یاد آئے۔ کاش تیل کی دولت سے اچانک مالامال ہوکر ہمارے عرب بھائیوں نے خود ہی کے لئے نہیں بلکہ پوری اُمہ کے طویل المدتی استحکام اور خوش حالی کا بھی کوئی بندوبست کرلیا ہوتا۔

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی