درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجان: وسعت اللہ خان
(بشکریہ ایکسپریس) پاکستان میں موجود چھ بین الاقوامی دوا ساز کمپنیوں نے اپنی طبی مصنوعات کی قیمتوں میں پندرہ فیصد یکطرفہ اضافہ کردیا۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو بھی یہ اطلاع میڈیا ہی سے ملی کہ جس کا کام ہی دواؤں کی قیمتوں کو باقاعدہ اور دوا ساز کمپنیوں کو قابو میں رکھنا ہے۔کہتے ہیں دو ہزار تیرہ میں بھی دواساز کمپنیوں نے ایسے ہی پندرہ فیصد قیمت بڑھائی تھی۔
اب چند دن حسب ِ روائیت عوامی حلقے شور مچائیں گے ، بی کیٹگری کے پریس ریلیزی سیاستداں سنگل کالمی مذمت چھپوائیں گے ، دوا ساز کمپنیوں کے ترجمان خام مال کی مہنگائی کا رونا روتے ہوئے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں دواؤں کی سستائی ثابت کرنے والے جدول اور چارٹ دکھائیں گے ، پیچیدہ اصطلاحات کی جلیبی بنا کر ٹی بی زدہ شیدے ، ڈائلسس زدہ حمیدہ ، بائی پاس زدہ کمالو ، سردرد زدہ چمن علی اور رعشہ زدہ مختاراں کو سمجھائیں گے کہ جو کچھ بھی اضافہ ہوا وہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
آخر کو ہمیں بھی خدا کو منہ دکھانا ہے ، کیا ہمارے دل نہیں دکھتے ایسے فیصلے کرتے وقت ، کیا ہمارے بال بچے بیمار نہیں ہوتے وغیرہ وغیرہ۔اور ڈرگ کنٹرول اتھارٹی ایک بار پھر کندھے اچکا کے دیگر ضروری کاموں کی ریت میں گردن چھپا لے گی۔یوں سب کے سب دواؤں کی قیمتوں میں اگلے یکطرفہ اضافے تک ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔
مگر میرا مقدمہ کچھ اور ہے۔بات دوا کے مہنگے سستے ہونے سے زیادہ یہ ہے کہ جن دواؤں کا اسٹاک ریٹ بڑھانے سے پہلے ہی سے بازار میں پڑا ہے کیا اسے پرانے ریٹ پر ہی رہنے دیا جائے گا یا بازار سے اٹھوا کر نئی قیمت کا ٹھپہ لگا کر پھر لایا جائے گا۔اس سوال کا سو فیصد جواب ہے کہ ہاں ایسا ہی ہوگا۔ ثبوت یہ ہے کہ جن دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ، ان کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ جوں جوں اضافی قیمت کے ٹھپے لگتے جائیں گے توں توں وہ بازار میں دستیاب ہوتی چلی جائیں گی۔
میری بلا سے سردرد کی پیٹنٹ گولی دس روپے کی آئے کہ سو کی۔ مجھے تو کوئی بس یہ بتا دے کہ کیا دس روپے کی گولی بیس روپے کی ہونے کے بعد خالص ملے گی ؟ یہ سوال یوں آ رہا ہے کہ اس وقت پاکستان کی ڈرگ مارکیٹ میں جعلی دواؤں کا تناسب چالیس سے پچاس فیصد کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ چند بڑے شہر چھوڑ کے قصبات اور دیہات دو نمبر بلکہ تین نمبر دواؤں کی سلطنت ہیں۔ورنہ جگہ جگہ کاہے کو سننا پڑے کہ بس فلاں میڈیکل اسٹور سے دوائیں خریدنا اور کہیں سے مت لینا۔
میرا مسئلہ دواؤں کی قیمت آسمان چھونے سے زیادہ یہ ہے کہ مہنگی ہونے کے بعد کیا اسپتالوں کو ایکسپائرڈ دواؤں کی سپلائی کم ہو جائے گی۔ہوسکتا ہے دوا ساز کمپنیاں کہیں کہ ہم تو صرف دوائیں بناتے ہیں۔یہ ذمے داری تو ہول سیلرز کی ہے کہ وہ ایکسپائرڈ یا نان ایکسپائرڈ کا خیال رکھیں۔اور ہول سیلرز یہ کہیں گے کہ کمپنیاں ہم سے ایکسپائرڈ دوائیں واپس نہیں لیتیں تو ہم کیا کریں ؟
یہ بات تو طے ہے کہ دوائیں ایک خاص تاریخ کے بعد استعمال نہیں کی جاسکتیں۔مگر کوئی بتا سکتا ہے کہ پھر ان دواؤں کاآخر ہوتا کیا ہے ؟ میں نے منوں ٹنوں منشیات تلف ہونے یا سیکڑوں لیٹر شراب سے بھری بوتلیں بلڈوزروں سے کچلے جانے کی تصاویر تو بے شمار دیکھی ہیں لیکن آج تک حسرت ہی رہی کہ کوئی دوا ساز کمپنی ، کوئی ہول سیلر ، کوئی محکمہ صحت ، کوئی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی یہ شایع تصویر بھی دکھا دے کہ ایکسپائرڈ دواؤں کے ذخیرے کو برسرِ عام تلف کیا جارہا ہے۔تو پھر یہ سب کہاں جاتی ہیں ؟ کہیں تو جاتی ہی ہوں گی اور وہاں سے ہمارے جسموں میں ہی آتی ہوں گی۔
کیا ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کسی دوا ساز کمپنی کو طے شدہ میکنزم سے انحراف پر سزا دے سکتی ہے ؟ شائد سزا کا ڈھانچہ موجود ہے مگر اس ڈھانچے کو کتنی بار زحمت دی گئی۔
مان لیاڈرگ کنٹرول اتھارٹی سے بالا بالا دواؤں کی قیمت نہیں بڑھائی جاسکتی لیکن خود اتھارٹی کی منظوری سے بھی جو قیمت بڑھتی ہے اس میں کتنی شفافیت ہوتی ہے ؟ میں سن اسی کے عشرے کے آخری برسوں کے ایک وزیرِ صحت سے واقف ہوں جو ڈرگ کنٹرول اتھارٹی سے قیمتوں میں اضافہ کرانے کے چند دن بعد ملک سے ایسے چمپت ہوئے کہ زندگی میں واپس نہ لوٹے۔اس زمانے میں یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ دس کروڑ روپے جس وزیر کو یکمشت ہاتھ آجائیں اسے پاکستان میں رہنے کی ضرورت ہی کیا۔تو پچھلے ستر برس میں کیا اپنی نوعیت کا یہ ایک ہی کیس ہوا ہوگا ؟
چلیے گولی ماریں سردرد کی گولی بنانے والے گولی بازوں کو۔اس پاکستان میں کتنے کاروباری ہیں جو منافع کا موقع سامنے ہو اور وہ اس پر شبخون نہ ماریں ؟کیا پٹرول کی قیمتوں میں اضافے یا کمی کے بعد چوبیس گھنٹے کے لیے پٹرول پمپ بند نہیں ہوتے ؟ کیا پرانے پٹرولیم ، ڈیزل اور گیس اسٹاک کو پرانی قیمت پر ہی خالی کیا جاتا ہے ؟رمضان کے مہینے میں کیا ہوتا ہے ؟ کون کون مسلمان کاروباری روزے کے ثواب کو روزی کی چاندی سے نہیں بدلتا اور آخری دس روز میں عمرے کی فلائٹ نہیں پکڑتا ؟
یہ پی آئی اے کی ہڑتال تو ابھی کی بات ہے۔اس ہڑتال کے ستائے ہزاروں پسنجروں کی دیگر ایرلائنز نے جس طرح مدد کی وہ ہماری تہذیبی و اخلاقی روایات کے پنے پر سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہے۔کراچی اسلام آباد ریٹرن ٹکٹ جو عام دنوں میں پندرہ سے پچیس ہزار روپے کے درمیان رہتا ہے ، ہڑتال کے پہلے دو دنوں میں چون ہزار روپے تک جا پہنچا۔یعنی ایک عام پاکستانی مسافر کے کپڑے پی آئی اے کی ہڑتال نے اتار لیے اور کھال دیگر فضائی کمپنیوں کے ہاتھ آئی۔کیا کوئی مونو پلی کمیشن ، کوئی ایف آئی اے ، کوئی نیب ، کوئی محتسب ، کوئی حکومت حرکت میں آئی، صرف یہ بتانے کے لیے کہ ’’ کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے ، کوئی تہذیب ہوتی ہے ‘‘۔
میرے پاس اس وقت کچھ نہیں بچا مزید سوچنے کو لکھنے کو علاوہ اس ہزار بار سنی پھٹیچر کہانی کے۔
’’ بادشاہ کے لشکر نے ایک گاؤں کے نزدیک پڑاؤ ڈالا۔ خیمے تن گئے۔گوشت چولہوں پے چڑھ گیا۔بادشاہ نے شاہی کارندے کو دوڑایا کہ گاؤں سے نمک خرید لاؤ۔کسی لال بھجکڑ درباری نے پوچھا حضور نمک جیسی حقیر شے خریدنے کی کیا ضرورت۔گاؤں والے ویسے ہی ڈلے کے ڈلے لے آئیں گے۔آخر کو آپ ان کے بادشاہ اور وہ رعایا ہیں۔بادشاہ نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے کہا اگر میں نے نمک جیسی بے قیمت شے بھی مفت حاصل کرنے کی اجازت دے دی تو اسے مثال سمجھ کے میرا لشکر پورے گاؤں کو مفت کا مال سمجھ کے اجاڑ ڈالے گا۔
مگر یہ پرانے دور کی کہانی ہے جب بادشاہ کی چلا کرتی تھی۔اب تو بادشاہ خود چابی سے چلتا ہے۔ان حالات میں دواؤں کا طالب مریض ہو ، کہ سستی کھاد کا منتظر کسان ، کہ موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوانے والا بے روزگار ، کہ اپنی تنخواہ میں ہی گذارہ کرنے والا صابر و سادہ پوش۔، ان سب کے لیے ایک ہی پیغام ہے۔اناللہ وانا الیہہ راجعون۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں