کرپشن کا فرنٹ مین جمہوریت : ظہیر اختر بیدری



کپتان نے کئی بار کہا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو کرپشن کے پھیلے ہوئے درخت کو نوے دن کے اندر اکھاڑ پھینکیں گے، چونکہ وہ اب تک اقتدار میں نہیں آئے لہٰذا وہ اپنا وعدہ پورا نہ کرسکے لیکن وہ اتنا ضرور جانتے ہوں گے کہ اقتدار کے محل کانِ نمک ہیں، جو بھی ان محلوں میں جاتا ہے نمک بن جاتا تھا۔

اب خان صاحب کے ایک سیاسی اتحادی سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ وہ کرپشن کے رستے ہوئے ناسور کے خلاف آیندہ ماہ سے ایک منظم تحریک شروع کریں گے۔ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے اور اس کے کارکن پختہ کار نظریاتی کارکن ہیں، امیر اور اپنی جماعت کے فیصلوں پر عملدرآمد کو اپنی دینی ذمے داری سمجھتے ہیں، اس لیے وہ اس تحریک میں دل و جان سے حصہ لیں گے، خواہ تحریک کامیاب ہو نہ ہو۔

سراج الحق جب سے جماعت کے امیر منتخب ہوئے ہیں مسلسل انقلابی نعرے استعمال کر رہے ہیں، جماعت اسلامی کے ماضی کے امرا مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی بات کرنے والوں کو کمیونسٹ کہہ کر ان کی مذمت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے صالح کارکن مزدوروں کسانوں کے حقوق کی بات کرنے والوں اور امریکا کی مخالفت کرنے والوں کو سرخے کہہ کر اپنے کارکنوں کے ذریعے پٹواتے تھے۔

سراج الحق اگر آج بحیثیت امیر جماعت اس ملک کے اہم قومی ایشوز پر تحریک چلانے کی بات کرتے ہیں تو بغیر تحفظات کے ان کی حمایت کی جانی چاہیے، لیکن کرپشن کی گہرائی اور گیرائی، اس کے رشتوں ناتوں کو سمجھے بغیر کوئی تحریک چلائی گئی تو ایسی تحریک وقت کے زیاں اور پروپیگنڈہ مہم سے زیادہ اہمیت نہیں رکھ سکتی۔

کرپشن صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا عالمی مسئلہ ہے جو ایک متعدی بیماری کی شکل میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلا ہوا ہے۔ جس طرح مچھر گندگی میں جنم لیتے ہیں اسی طرح اس وبا کی جنم بھومی سرمایہ دارانہ نظام ہے اور اس کا ’’فرنٹ مین‘‘ سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے۔ اگر کرپشن کو ختم کرنا ہو تو سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے فرنٹ مین سرمایہ دارانہ جمہوریت کے خلاف ڈنڈا اٹھانا پڑے گا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اور مذہبی سیاست کرنے والے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی اسی طرح پوجا کرتے ہیں جس طرح ہندو لکشمی دیوی کی پوجا کرتے ہیں۔

اگر اس تضاد پر نظر ڈالی جائے تو کرپشن کے خلاف تحریک ایک مذاق لگتی ہے۔ ہماری سیاست کے سارے چیمپئن جمہوریت کو اوڑھنے بچھونے کی طرح استعمال کرتے ہیں، ہمارے سیاسی جسم کے لیے جمہوریت سانس کی طرح ہوتی ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں لیکن اس کے باوجود بعض ملکوں میں کرپشن کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ اسرائیل کے ایک سابق وزیراعظم کو کرپشن، اقربا پروری اور مقدمے کے گواہوں پر دباؤ ڈالنے کے الزام میں 24 ماہ کی سزا سنادی گئی اور ہمارا یہ کالم چھپنے تک سابق اسرائیلی وزیراعظم جیل میں جاچکے ہوں گے، جہاں انھیں عام قیدی کی طرح دو سال گزارنا پڑیں گے۔

بحیثیت مسلمان ہم یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ وہ بے گناہ فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، لیکن ایک چھوٹا سا ملک اور 40-30 لاکھ پر مشتمل قوم آج سارے عرب ممالک کے سر پر اس لیے بھی سوار ہے کہ داخلی طور پر اس کی عدلیہ آزاد ہے اور بلاامتیاز فیصلے کرتی ہے۔ اسرائیل کے علاوہ بھی کئی ملک ایسے ہیں جو کرپشن کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کر رہے ہیں، ان میں چین بھی شامل ہے، جہاں پر اعلیٰ ترین سطح کے لوگوں کو کرپشن کے الزام میں سخت ترین سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔

گڑ کھا کر گلگلوں سے پرہیز کرنے کو ایک حماقت آمیز پرہیز کہا جاتا ہے، اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ہماری جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام میں فرنٹ مین کی حیثیت رکھتی ہے، ہم آئے دن حکمرانوں، سیاستدانوں کے فرنٹ مینوں کے بارے میں میڈیا میں انکشافات دیکھتے رہتے ہیں۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ہماری جمہوریت ابھی تک مکمل طور پر سرمایہ دارانہ بھی نہیں بن سکی ہے، بلکہ جاگیردارانہ نظام کے ساتھ 68 سال سے راج کر رہی ہے۔

اس دوآتشہ شراب نے جمہوریت کے سورماؤں کو اس قدر نڈر بنادیا ہے کہ اربوں روپوں کی کرپشن کے تحفے سینوں پر سجا کر عدالتوں میں فخر سے وکٹری کا نشان بناتے ہیں اور ان کے سیاسی کارکن یا سیاسی ہاری عدالتوں کے احاطوں میں اپنے رہنماؤں کے حق میں زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ یہ نعرے عملاً اور اصلاً کرپشن زندہ باد کے نعرے ہیں جن ملکوں کے سیاسی کارکن کرپشن زندہ باد کے بالواسطہ نعرے لگاتے ہیں، ان ملکوں میں کرپشن کی گیرائی اور گہرائی کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔

ہمارے ملک میں قانون اور انصاف کا نظام کس قدر برق رفتار ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ سطح رہنماؤں اور اعلیٰ سطح حکمرانوں کے خلاف عشروں سے اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات میں ریفرنس داخل ہیں پیشیوں پر پیشیاں چلتی ہیں، لیکن انصاف ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے، جن ملکوں میں انصاف اس قدر تیز رفتار ہو ان ملکوں میں کرپشن کو ختم کرنے کی تحریکوں کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔

اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ ہمارے ملک کے نظام انصاف میں مجرموں کو اتنی زیادہ اور غیر معمولی قانونی سہولتیں حاصل ہیں کہ مجرم دھڑلے سے جرائم کا ارتکاب کرتے نظر آتے ہیں۔ جرائم جب پولیس کے تعاون اور سرپرستی میں ہوں تو کوئی رستم بھی جرائم کو روک نہیں سکتا۔ ہمارے قانون نے پلی بارگین کی ایک ناقابل یقین سہولت کرپشن کے مجرموں کو فراہم کی ہے جس کے مطابق اربوں روپوں کی کرپشن کا مجرم ایک مقررہ جرمانہ ادا کرکے کرپشن کے الزامات سے بری ہوجاتا ہے۔ سراج الحق صاحب کیا آپ اس قانونی کرپشن کو روک سکتے ہیں۔

کرپشن کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کی حمایت کی جانی چاہیے لیکن کرپشن کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے والوں کو کرپشن کی گیرائی اور گہرائی کا اندازہ ہونا چاہیے۔ دیگر سیاستدانوں کی طرح سراج الحق بھی ہماری جمہوریت کے دلدادہ ہیں۔

2014 میں جب جمہوریت کے سر پر آمریت کے بادل تیرتے نظر آئے تو جمہوریت کی چیمپئن 13 جماعتوں نے پارلیمنٹ میں مورچہ لگا کر جمہوریت کی حفاظت کی اسی جمہوریت کو چلانے والوں پر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات میں مقدمے دائر ہیں جن میں سے بعض مقدمات میں اللہ کے فضل سے یہ جمہوری رہنما بری ہوچکے ہیں اور امید ہے کہ باقی مقدموں سے بھی یہ زعما بری ہوجائیں گے کیا ہم سراج الحق سے سوال کرسکتے ہیں کہ بیچ اس مسئلے کے ان کا کیا خیال ہے؟ جرائم جب قانون کی سرپرستی میں ہوں اور حکمران ملزم ہوں تو پھر کرپشن کا کوئی تحریک کیا بگاڑ سکتی ہے؟

بشکریہ ایکسپریس نیوز

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی