ٹک ٹاک اور اسلامی معاشرے پر اس کے منفی اثرات ، ثنا یوسف کا قتل ، کیا ثنا کی قاتل خود ثنا ہے ؟

ٹک ٹاک اور اسلامی معاشرے پر اس کے منفی اثرات

تحریر افسرخان 


آج کا دور ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا دور ہے، جہاں ہر شخص اپنی بات کہنے، دکھانے اور سننے کے لیے نت نئے پلیٹ فارمز کا سہارا لے رہا ہے۔ انہی میں سے ایک مشہور ایپ ٹک ٹاک ہے، جو تفریح اور شہرت کی تلاش میں نوجوان نسل خصوصاً خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ ایپ اسلامی معاشرے کی اقدار اور روایات کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔

شرم و حیا کا خاتمہ

اسلام ایک باحیا اور باوقار معاشرے کا داعی ہے، جہاں شرم و حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ مگر بدقسمتی سے آج ٹک ٹاک کی وجہ سے خواتین اور خاص طور پر کم عمر لڑکیاں اپنی شرم و حیا کو بھلا بیٹھی ہیں۔ وہ اپنی جسمانی خوبصورتی اور جسمانی اعضاء کی نمائش کر کے سستی شہرت اور لائکس حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ جسم اور جسمانی اعضاء کی نمائش اسلام میں باعثِ شر اور سخت منع ہے۔

اسلامی معاشرے میں فحاشی کی گنجائش نہیں

اسلامی تعلیمات کے مطابق فحاشی اور عریانی کی کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں کے معاشرتی اقدار میں بھی اس قسم کی بے حیائی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ قرآن مجید میں بھی عورت کو پردے کا حکم دیا گیا ہے۔

قرآن کی آیت:


وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ
(سورۃ النور، آیت 31)

ترجمہ:

اور ایمان والی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے، اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں۔

تشریح:
اس آیت میں عورتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زینت اور جسمانی اعضاء کو غیر مردوں کے سامنے ظاہر نہ کریں اور اپنی نظریں بھی نیچی رکھیں تاکہ معاشرے میں پاکیزگی اور حیا کا ماحول قائم رہے۔


اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النور19)

’’جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

’’ جس میں حیاء ہوگی اس میں ایک خاص قسم کی زینت ہوگی۔ ‘‘ ( ترمذی)

جتنا زیادہ تقوی ہوگا اتنی حیاء زیادہ ہوگی اس کے بارے میں حدیث رسول ﷺ ملاحظہ فرمائیں :

’’حیاء اور ایمان دونوں ایک ساتھ ہیں اگر ان میں سے ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود اُٹھ جاتاہے۔‘‘ (الحاکم)

حیاء اور ایمان اکھٹے کئے گئے ہیں پھر جب ان میں سے ایک اٹھ جاتاہے تو دوسرا بھی چلا جاتاہے۔ ( مشکوۃ)


رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :

’’شرم اُٹھ جانے کے بعد جو جی چاہے کرو۔‘‘ (مشکوۃ)

’’جب تو حیا نہیں کرتا تو پھر جو جی چاہے کر۔‘‘ (بخاری)


سانحہ ثنا یوسف اور عبرت

ابھی حال ہی میں ثنا یوسف کا افسوسناک قتل ہوا، جس نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج اگر ثنا قتل ہوئی ہے، تو کل کتنی اور ثنا یوسف بننے کے لیے تیار بیٹھی ہیں؟ ہمیں اس سے سبق لینا ہوگا اور اپنی بیٹیوں کو عزت اور شرم و حیا کا سبق دینا ہوگا۔

معاشرتی تنگ نظری اور تشدد کا خاتمہ

صرف لڑکیوں کو الزام دینا بھی درست نہیں، معاشرے میں تنگ نظری، عدم برداشت اور تشدد کا خاتمہ ضروری ہے۔ والدین، اساتذہ، اور علمائے کرام کو آگے بڑھ کر نوجوانوں کی مثبت تربیت کرنی چاہیے۔

باپردہ اور مہذب مواد بھی ممکن

یہ کہنا کہ ٹک ٹاک پر صرف بے حیائی کے ذریعے ہی ویڈیوز بنائی جا سکتی ہیں، سراسر غلط ہے۔ کئی باپردہ اور اسکارف والی لڑکیاں بھی ٹک ٹاک پر مثبت اور تعلیمی ویڈیوز بنا رہی ہیں۔ اگر مقصد صرف تفریح اور معلومات کی فراہمی ہو تو حیا اور عزت کے دائرے میں رہ کر بھی ویڈیوز بنائی جا سکتی ہیں۔

نتیجہ

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت، والدین، اور معاشرہ مل کر فحاشی کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکے۔ سوشل میڈیا پر ضابطہ اخلاق بنایا جائے، اور اسلامی تعلیمات کے مطابق عوام میں شرم و حیا اور پردے کی اہمیت اجاگر کی جائے۔ تبھی ہم ایک بااخلاق اور اسلامی معاشرہ تشکیل دے سکیں گے۔


خلاصہ مضمون:

موجودہ دور میں سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک نوجوان نسل خصوصاً خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو بے حیائی اور فحاشی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اسلامی معاشرہ شرم و حیا اور پردے کا علمبردار ہے اور قرآن میں بھی عورت کو اپنی زینت چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔

ثنا یوسف کے قتل جیسے افسوسناک واقعات معاشرے میں بگڑتی ہوئی اخلاقی صورتحال کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تنگ نظری اور تشدد کا خاتمہ بھی ضروری ہے تاکہ لڑکیاں محفوظ اور باعزت زندگی گزار سکیں۔

ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر بھی باپردہ اور مہذب ویڈیوز بنائی جا سکتی ہیں جیسا کہ کئی مثبت مثالیں موجود ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ حیا اور اسلامی اقدار کو فروغ دیں، سوشل میڈیا پر ضابطہ اخلاق نافذ کریں اور اپنے بچوں کی مثبت تربیت کریں تاکہ معاشرہ فحاشی اور بے راہ روی سے محفوظ رہے۔

کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی