کیا ارب پتی زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں؟




کیا ارب پتی افراد اپنے مالی معاملات کی طرح پڑھائی میں بھی اچھے ہوتے ہیں؟ یا امکانی طور پر وہ پہلا موقع ملتے ہی سکول سے فرار ہوجاتے ہیں اور اپنی قسمت بنانے کے لیے اپنے طریقے سے کام کرتے ہیں؟

کیا وہ گریجویٹ ہوتے ہیں یا کاروبار کی باقاعدہ شروعات کے لیے یونیورسٹی جانا ترک کردیتے ہیں؟

ارب پتی افراد کی اولین صف کے تعلیمی پسِ منظر پر ایک تجزیے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اوسط کے مقابلے اِن میں سے زیادہ افراد یونیورسٹی گئے ہیں۔ اور کوئی بھی سند نہ لینے کے بجائے اُن کے پوسٹ گریجویٹ سند حاصل کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

یہ تجزیہ خودآموز کاروباری تنظیم کاروں کی شبیہ کی زیادہ ترجمانی نہیں کرتا جو اعلیٰ تعلیم کے بجائے اپنی عقل اور صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔

انشورنس کمپنی گو کمپیئر نے گذشتہ 20 برس کے دوران فوربس میگزین کے ٹاپ 100 ارب پتیوں کی فہرست میں شامل افراد کی سکول کے بعد کی تعلیم کے متعلق جانچ کی ہے۔

اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان ارب پتیوں میں سے 76 فی صد کے پاس سند ہے۔ اُن میں سے 47 فی صد کے پاس گریجویشن کی سند ہے، 23 فی صد کے پاس ماسٹرز کی جبکہ چھ فی صد کے پاس ڈاکٹریٹ کی سند ہے۔

سب سے زیادہ مقبول مضامین میں معاشیات اور انجینیئرنگ سے متعلق کورسز شامل تھے۔ جبکہ کافی تعداد میں ایسے تھے جو آرٹس یا ہیومینیٹیز (وہ علوم جس میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل رہے مثلا ادب، تاریخ، فلسفہ، لسانیات وغیرہ) کے مقابلے میں سائنس پڑھ رہے تھے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان امیر ارب پتیوں میں سے ایک چوتھائی کے قریب ایسے ہیں جو کبھی یونیورسٹی میں داخل ہی نہیں ہوئے یا اُنھوں نے گریجویشن سے قبل ہی یونیورسٹی چھوڑ دی تھی۔

امریکہ کی بالغ آبادی سے موازنہ کیا جائے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عام آبادی کے مقابلے میں اِن ارب پتیوں میں سے 68 فی صد کے بیچلرز کی سند رکھنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اور ارب پتی افراد کے پوسٹ گریجویٹ سند حاصل کرنے کے امکانات تین گُنا زیادہ ہیں۔

جبکہ 61 فی صد ارب پتیوں کے کوئی بھی سند نہ رکھنے کے امکانات ایک عام امریکی بالغ شخص کے مقابلے میں کم ہیں۔

عالمی سطح کے امیر ترین افراد کے تعلیمی مراکز کی اقسام میں مقامی کالجوں کے بجائے اشرافیہ کے تعلیمی ادارے شامل ہیں۔

امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی وہ واحد یونیورسٹی ہے جس کا نام ارب پتی افراد کی سی وی پر زیادہ تر درج ہوتا ہے۔ جس کے ساتھ ہاورڈ بزنس سکول بھی مقبول ہے۔

جبکہ اس فہرست میں موجود ایک بہت مشہور نام، بل گیٹس ہے جنھوں نے تعلیم مکمل ہونے سے قبل ہی ہاورڈ یونیورسٹی چھوڑ دی تھی۔

روسی دولت میں اضافے کا عکاس شہر ماسکو، اِن ارب پتیوں کے لیے بہت زیادہ مقبول یونیورسٹیوں والا شہر ہے جس میں ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی اور ماسکو کے اہم اداروں کی ایک وسیع تعداد شامل ہے۔

کیلیفورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی اور ٹیکنالوجی کے میسا چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ارب پتی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے نقطہ آغاز بن گئے ہیں۔ گوگل کے سرگی بِرن نے سٹینفورڈ یونیورسٹی نے پوسٹ گریجویٹ کی سند حاصل کی تھی۔

برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں، لندن سکول آف اکنامکس اور کیمبرج ایسی یونیورسٹیاں ہیں جن میں فہرست میں شامل بہت سے ارب پتی افراد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کو میڈیا کمپنی نیوز کارپوریشن کے مالک اور معروف میڈیا مغل روپرٹ مرڈوک کو تعلیم دینے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ فرانس کی ایکول پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کے پُرانے طلبا میں سب سے زیادہ ارب پتی افراد شامل ہیں۔

بھارتی ارب پتیوں نے ممبئی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور بھارتی نژاد سٹیل کے تاجر لکشمی متّل نے کلکتہ یونیورسٹی کے سینٹ زیویئرز کالج سے تعلیم حاصل کی۔

اس تحقیق سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ ارب پتی افراد پہلے غریب تھے جن کو یونیورسٹی میں تعلیم کے ذریعے وسیع مواقع ملے یا اُن میں سے کتنے ارب پتیوں کے بچے تھے۔

تجزیے سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ٹاپ 100 ارب پتی افراد کی اوسط عمر 61 سال کے قریب ہے۔ اور امریکہ کی عام بالغ آبادی کے مقابلے میں اِن میں سے زیادہ تر شادی شدہ ہیں۔

یہ تجزیہ بہت زیادہ امیر افراد پر مشتمل ہے، وہ جو کہ ارب پتی افراد کی فہرست میں سب سے اُوپر ہیں۔ لیکن عام ارب پتی افراد کی جامعات کے متعلق بھی ماضی میں سروے کیے جاچکے ہیں۔

سوئس بینکنگ گروپ اور سنگاپُور کی مالیاتی انٹیلیجنس فرم، دا ویلتھ ایکس اور یو بی ایس بلینیئر سینسس کے 2300 ارب پتی افراد پر کیے جانے والے سروے میں بھی گریجویٹس کی کثیر تعداد ملتی ہے۔

ہارورڈ، ییل، جنوبی کیلیفورنیا کی یونیورسٹی، پرنسٹن، کارنیل اور سٹینفورڈ یونیورسٹی کی طرح پنسلوانیا یونیورسٹی نے بھی اچھے خاصے ارب پتی افراد پیدا کیے۔

لیکن ایک بار پھر برطانیہ کے اداروں میں لندن سکول آف اکنامکس ہی ہے جس نے سب سے زیادہ ارب پتی افراد پیدا کیے ہیں۔


اس تجزیے سے معلوم ہوا کہ جتنے زیادہ افراد یونیورسٹی گئے اُتنا ہی اُن فرسٹ کلاس اور اپر سیکنڈ کلاس سند کے حامل افراد نے اپنےکاروبار میں وسیع مالی فائدہ حاصل کیا۔

سوٹن ٹرسٹ جو سماجی حرکت پذیری اور یونیورسٹی تک منصفانہ رسائی کو فروغ دیتا ہے، اس کے چیئرمین سر پیٹر لیمپل کا کہنا ہے: ’اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ دنیا کے زیادہ تر امیر ترین افراد نے سب سے اُونچے درجے کی جامعات سے پوسٹ گریجویٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔‘

انھوں نے مزید کہا ’ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مالیاتی مواقع اور پوسٹ گریجویٹ ڈگری کے حامل افراد کو ملنے والے مواقع ناصرف مالی طور پر مستحکم افراد کو بلکہ کسی بھی پسِ منظر سے تعلق رکھنے والے ذہین افراد کو بھی یکساں ملنے چاہییں۔‘

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی