نجکاری ہضم ہوجاتی ہے جھوٹ نہیں : وسعت اللہ خان

6 فروری 2016
کسی نے فیس بک پر لکھا ہے کہ ’’پی آئی اے ملازمین کام کریں تو ملک کو اربوں کا نقصان اور کام نہ کریں تو ایئر لائن کو کروڑوں کا نقصان۔ جائیں تو جائیں کہاں‘‘ …

نجکاری آج کل دنیا بھر میں فیشن ہے۔ کیونکہ اس سے ریاست کا بوجھ کم ہو جاتا ہے مگر اختیار و طاقت وہی رہتی ہے۔ کام نیا نہیں مگر نئے انداز میں ہو رہا ہے۔ بس شراب کی بوتل بدل گئی ہے۔ بادشاہ لگان لینے خود تھوڑا جاتا تھا۔ منصب داروں، صوبے داروں، دس ہزاریوں، پنج ہزاریوں کو گاؤں کے گاؤں بخش دیتا تھا۔ یہ منصب دار بادشاہ کو عندالطلب مالی و افرادی قوت فراہم کرتے تھے اور اس کے عوض پرجا کی کھال کھینچ لینے کی پوری اجازت ہوتی۔ انگریز نے اس آرٹ کو ذرا مہذب بنا دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مقبوضہ علاقے مقامی طاقتور ’’پارٹیوں‘‘ کو ٹھیکے پر دینے شروع کر دیے۔

یعنی فلاں علاقے میں جمع کردہ مالیے کا ایک کروڑ روپیہ سرکار کے خزانے میں جائے گا۔ اس کے بعد مالیہ جمع کرنے والا قانونی غنڈہ جاہل کسان سے جو کھینچ سکے وہ اس کا۔ چنانچہ کسان کے پاس اکثر علاقوں میں بس اپنی کھال اور محنت کے قابل رکھنے کے برابر روٹی بچ جاتی تھی۔ جیسے گدھے کو چارہ…

کبھی کبھی سرکار کو ایمرجنسی میں غلے یا دیگر زرعی اجناس کی ضرورت پڑتی تو یہی نیلامیے، ٹھیکیدار اور پنج ہزارئیے کام آتے اور سارا غلہ چھین کر کمیشن کھرا کرتے یا حاکم سے قربت کی قیمت کے طور سرکار کے حوالے کر دیتے۔ چنانچہ قحط پڑ جاتا اور لاکھوں لوگ مر جاتے۔ مگر فرق اس لیے نہیں پڑتا تھا کہ مویشی اور نچلا طبقہ بچے زیادہ پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ چند ہی دنوں میں محنت کش ہاتھوں کی نئی لہلہلاتی فصل کٹنے کے لیے کھڑی ہو جاتی۔ (جیسے آج کل برڈ فلو میں لاکھوں مرغیاں مر جاتی ہیں مگر گوشت کی پیداوار پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ اس اعتبار سے پچھلے ادوار کے قحط کو آپ انسانی برڈ فلو سمجھ لیجیے)۔

آج خیر سے ریاست بھی مہذب ہے اور طور طریقے بھی۔ نجکاری کی کڑوی گولی کو ایسے لذیز اصطلاحاتی قلاقند میں ڈال کے دیا جاتا ہے کہ بندہ خود آگے بڑھ کے کہے آؤ مجھے بھی بیچ دو۔

یہ قحط و بھک مری کا نہیں فوڈ ان سیکیورٹی کا دور ہے۔ بیروزگاری کی جگہ ڈاؤن سائزنگ اور ری ٹرینچ منٹ (شاخوں کی قطع برید) سکہ رائج الوقت ہے۔ اداروں کو بیچا نہیں جاتا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا نام دے کر ریاستی بابل کے گھر سے رخصت کیا جاتا ہے۔ کمپنیوں کا کنٹرول کسی سیٹھ (اسٹرٹیجک پارٹنر) کے حوالے نہیں کیا جاتا بلکہ ایک چوتھائی شراکت داری کے عوض بقیہ پچھتر فیصد کی قسمت کے فیصلے کے اختیارات پارٹنر صاحب کو سونپے جاتے ہیں۔ ادارے کا رشتہ بھی ریاست ڈھونڈتی ہے اور حق مہر بھی ریاست طے کرتی ہے اور یہ حق مہر وصولتی بھی خود ہے۔

اکثر تصویر کسی کی دکھائی جاتی ہے نکاح کسی اور سے ہوتا ہے۔ رخصتی سے پہلے ادارے کی دلہن کو یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ نئے گھر میں راج کرے گی۔ دولہا والے بھی یقین دلاتے ہیں کہ اسے بیٹیوں کی طرح رکھا جائے گا۔ ریاست بھی کتاب ِآئین کے سائے میں بوقتِ رخصتی سرگوشی کرتی ہے کہ بیٹا پریشان مت ہو نا اگر کوئی اونچ نیچ ہوئی تو ہم ہیں نا… اور پھر دلہن کھیڑیاں دے نال ٹر جاندی ہے…

پی ٹی سی ایل، کے ای ایس سی وغیرہ یاد ہیں نا۔ کیسے کیسے سبز باغ دکھائے گئے تھے۔ کیا بہتری آئی اور عوامی مشکلات میں اس ’’کارپوریٹ متعہ‘‘ کے سبب کیا کمی آئی۔ سوائے یہ کہ ان گائیوں کو نئے مالکان نے نت نئے تجارتی منافع جاتی ہارمونز کے انجکشن لگا کر خود تو دوگنا دودھ حاصل کر لیا اور گائے کو بس چارہ ملا اور کمیشن سودا کرانے والے دلالوں کی جیب میں گیا۔

شیخ رشید کی کوئی بات بھی قابل ِ غور نہ سہی پر یہ بات قابلِ غور ہے کہ پی آئی اے بیچی نہیں خریدی جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسٹرٹیجک پارٹنر بننے والی فرنٹ کمپنی کوئی اور ہو اور اس کمپنی کے پیچھے اصل آدمی یا ادارہ کوئی اور ہو۔ جب نواز شریف وزیرِ اعظم نہیں بنے تھے تو ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے سے اگر بدانتظامی اور کرپشن کا خاتمہ ہو جائے تو ادارہ آج بھی پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ لیکن جب وہ تیسری بار وزیرِ اعظم بنے تو بیمار ایئر لائن کے دوا دارو میں ہاتھ بٹانے کے بجائے سالم بوئنگ ٹرپل سیون دو دو ہفتے تک بیرونی دوروں میں استعمال ہونے اور آن بورڈ طرح طرح کے کھابوں کے فرمائشی مینیوز کی خبریں بلا تردید شایع ہوتی رہیں۔

یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ سرکاری اداروں کے لیے رعایتی ٹکٹ کی سہولت ختم کر دی جاتی۔ کارِ سرکار کے نام پر ان اللوں تللوں سے پرہیز کے باوجود پی آئی اے کے تین سو ارب روپے مالی خسارے کی صحت پر کوئی خاص اثر نہ پڑتا مگر وزیرِ اعظم اور سرکاری اداروں کی جانب سے ایک علامتی ہمدردی اور تعاون کا اظہار ضرور ہو جاتا۔ آج لیگی حکومت کے بھونپو کہتے ہیں کہ پی آئی اے سمیت کئی اداروں کی نجکاری تو ہمارے منشور کا حصہ تھی۔

اگر منشور کا حصہ تھی تو پھر چور دروازے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دو ہزار چودہ کے موسمِ سرما میں آپ نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا کہ دسمبر تک نجکاری کر دیں گے۔ پھر آپ نے دو ہزار پندرہ کے موسمِ گرما میں وعدہ کیا کہ دسمبر تک کر دیں گے۔ پھر آپ نے کہا مارچ دو ہزار سولہ تک ہو جائے گی اور اب جولائی سے پہلے تک یہ عمل مکمل کرنے کا وعدہ کر کے آئی ایم ایف کی لگ بھگ پانچ سو ملین ڈالر کی نئی قسط حاصل کر لی گئی ہے۔

اور ان دو برس کے بیچ آپ پی آئی اے کے ملازمین اور پارلیمنٹ کو یقین دلاتے رہے کہ ہم نجکاری تھوڑا کر رہے ہیں ہم تو اسے خسارے سے نکالنے کی تدبیر کر رہے ہیں۔ ہم تو محض چند شئیرز فروخت کر رہے ہیں تا کہ اس مالی انجکشن سے پی آئی اے کی صحت بہتر ہو سکے۔ آئی ایم ایف سے دو برس قبل کیے جانے والے نجکاری وعدے کے باوجود اب تین ماہ پہلے تک وزیرِ اعظم پی آئی اے ورکرز کو یقین دلاتے رہے کہ وہ تندہی سے کام کریں تو ہم نجکاری نہیں کریں گے۔ تو پھر ہوابازی کے مشیر شجاعت عظیم نے کس اختلاف پر استعفی دیا۔ سپریم کورٹ نے پی آئی اے کے معاملات پر یکطرفہ فیصلے کرنے سے کیوں منع کیا۔ پی آئی اے کے مستعفی چیرمین ناصر جعفر کے بحالی منصوبے پر کتنا کان دھرا گیا۔

ایک وزیر یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ ہاں نجکاری کی جا رہی ہے اور دوسرا کیوں کہہ رہا ہے کہ نجکاری نہیں بلکہ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ لائی جا رہی ہے۔ کیا آپ نے آئی ایم ایف کو بے وقوف بنایا ہے یا پارلیمنٹ اور پی آئی اے کو۔ اور ایک نجی ایئرلائن کا مالک وفاقی کابینہ میں کیا کر رہا ہے؟

جب کہنے بتانے سننے کو کچھ نہ رہے۔ جب لوگوں کا یقین اکھڑنے لگے تو پھر قائل کرنے کے لیے ڈنڈا، آنسو گیس اور گولی ہی رہ جاتی ہے۔ گولی تو گولی ہے بھلے مارشل لا میں چلے یا جمہوریت کے پیچھے چھپ کر۔

ہاں پی آئی اے کی نجکاری ہو جائے گی۔ ثبوت یہ ہے کہ جس دن گولی چلی اس روز کراچی اسٹاک ایکسچینج میں پی آئی اے کے سترہ لاکھ شیئرز کی خرید و فروخت ہوئی۔ اگلے دن جب فلائٹ آپریشن ٹھپ ہوا تو اسی اسٹاک ایکسچینج میں پی آئی اے کے سات ملین شیئرز کی خرید و فروخت ہوئی۔ ان دو روز میں ان شیئرز کی قیمت میں لگ بھگ پونے دو روپے کا اضافہ ہوا۔ کہتے ہیں سرمائے کا پرندہ بدامنی برداشت نہیں کر پاتا مگر یہ کیسی بدامنی ہے کہ سرمائے کے پرندے نے پر تک نہ پھڑ پھڑائے۔ نجکاری کا عمل تو جلد یا بدیر ذہن سے محو ہو جائے گا لیکن جھوٹ کی سرمایہ کاری عرصے تک یاد رہے گی۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی