ملک ریاض انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز: جاوید چوہدری

اتوار 7 فروری 2016

محمد ابراہیم خان آرمی پبلک اسکول پشاور کا طالب علم تھا، یہ دسویں جماعت میں پڑھتا تھا، اس کا دوسرا بھائی اسد بھی اے پی ایس کا طالب علم تھا، دہشت گردوں نے 16 دسمبر 2014ء کو اسکول پر حملہ کیا، محمد ابراہیم کا بھائی اسد بری طرح زخمی ہو گیا جب کہ محمد ابراہیم دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گیا، ابراہیم کی ریڑھ کی ہڈی میں تین گولیاں لگیں، دہشت گرد اسے مردہ سمجھ کر آگے بڑھ گئے، فوج نے آپریشن کیا، دہشت گرد مارے گئے، ریسکیو ورک شروع ہوا، پتہ چلا ابراہیم زندہ ہے۔

ابراہیم کو سی ایم ایچ لایا گیا، ابتدائی طبی امداد دی گئی، بچے کی جان بچ گئی لیکن چند دن بعد معلوم ہوا بچہ مفلوج ہو چکا ہے اور یہ زندگی میں اب کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا، ابراہیم کے والدین دو بچوں کے علاج کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے، ابراہیم کے بھائی اسد کا علاج ہو گیا، یہ تندرست بھی ہو گیا لیکن یہ نفسیاتی مریض بن گیا جب کہ ابراہیم کی زندگی بستر تک محدود ہو کر رہ گئی، ابراہیم کی ماں علاج کے لیے ماری ماری پھرنے لگی، یہ درخواست لے کر کبھی اس دروازے پر جاتی اور کبھی اس دروازے پر لیکن کوئی اس کی بات تک سننے کے لیے تیار نہیں تھا، اس دوران بچے کے جسم پر زخم ابھرنے لگے۔

اس کا بدن گلنا شروع ہو گیا، ابراہیم کی ماں دھکے کھاتی کھاتی ملک ریاض تک پہنچ گئی، ملک ریاض نے ابراہیم کے علاج کا بیڑا اٹھا لیا، علاج کے لیے معلومات اکٹھی کی گئیں، پتہ چلا ابراہیم کا علاج لندن کے ہارلے اسٹریٹ کلینک میں ممکن ہے، علاج کے لیے ابتدائی اخراجات ڈیڑھ کروڑ روپے تھے، ملک ریاض نے یہ رقم کلینک میں جمع کرائی، ابراہیم کی فیملی کو لندن میں کرائے پر مکان لے کر دیا اور بچے کا علاج شروع ہو گیا، اللہ تعالیٰ نے کرم کیا، ابراہیم اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا، یہ اب چلتا بھی ہے، بولتا بھی ہے اور اسکول بھی جاتا ہے۔

یہ کہانی اگر یہاں پر ختم ہو جاتی تو یہ چیریٹی کی ایک عام معمولی سی کہانی ہوتی، ملک میں ایسی سیکڑوں کہانیاں موجود ہیں، آپ اگر تلاش کریں گے تو آپ کو ایسے سیکڑوں ہزاروں مریض مل جائیں گے جن کا ہاتھ کسی نہ کسی مخیر شخص نے تھاما، اللہ نے کرم کیا اور وہ دوبارہ نارمل زندگی گزارنے لگے، ابراہیم کی کہانی بھی ان سیکڑوں کہانیوں جیسی ایک کہانی ہوتی اگر اس میں ایک ڈرامائی موڑ نہ آتا اور وہ ڈرامائی موڑ عیادت تھی، ملک ریاض نے محمد ابراہیم کی عیادت شروع کر دی، یہ لندن جاتے، ہارلے اسٹریٹ کلینک میں ابراہیم سے ملتے، ڈاکٹروں سے ملاقات کرتے اور ابراہیم کی پراگریس رپورٹ دیکھتے، ملک ریاض کو ان وزٹس کے دوران معلوم ہوا ریڑھ کی ہڈی کے مسائل دنیا میں مشکل ترین اور مہنگے ترین طبی عارضے ہیں۔

یہ جس شخص کو لگتے ہیں اس کی زمین جائیداد بک جاتی ہے، ملک ریاض کو معلوم ہوا بیس کروڑ لوگوں کے ملک پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی اور سپائنل کارڈ کے ایشوز کا کوئی جدید اسپتال موجود نہیں، ملک میں جس شخص کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے معذوری اس شخص کا مقدر بن جاتی ہے، انھیں معلوم ہوا ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ایک آدھ سرجن کے بس کی بات نہیں ہوتا، اس کے لیے سرجنوں کی پوری ٹیم درکار ہوتی ہے اور پاکستان میں ٹیکنالوجی موجود ہے اور نہ ہی سرجن۔ ملک ریاض نے ہارلے اسٹریٹ کلینک کی انتظامیہ سے گفت و شنید شروع کی، انھیں پاکستان میں مکمل سہولتیں فراہم کرنے کا یقین دلایا اور انھیں پاکستان میں سپائنل سرجری کے لیے قائل کر لیا، لندن میں دو دن پہلے ہارلے اسٹریٹ کلینک اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان معاہدہ ہو گیا، معاہدے کے مطابق ہارلے اسٹریٹ کے 25 ڈاکٹر پاکستان آئیں گے۔

یہ ملک میں سپائنل سرجری کے یونٹ بنائیں گے، شروع میں یہ سہولت بحریہ گالف سٹی اسلام آباد، بحریہ انکلیو اسلام آباد اور بحریہ آرچرڈ لاہور میں دستیاب ہو گی، منصوبے پر شروع میں پانچ ارب روپے خرچ ہوں گے، یہ رقم بھی آہستہ آہستہ بڑھتی جائے گی اور یہ سہولت بھی ملک کے دوسرے حصوں تک پھیلتی جائے گی، یہ میڈیکل یونٹ جدید ترین ٹیکنالوجی پر مشتمل ہو گا، وہ تمام مشینیں اور تھیٹرز تین ماہ میں پاکستان میں بنائے جائیں گے جو اس وقت ہارلے اسٹریٹ کلینک میں ہیں اور جن کے لیے دنیا بھر سے سیکڑوں مریض کروڑوں ڈالر خرچ کر کے برطانیہ جاتے ہیں، یہ کلینک، یہ یونٹ جب بن جائیں گے تو آپ خود اندازہ کیجیے اس سے ابراہیم جیسے کتنے ایسے مریضوں کا بھلا ہو گا جو حادثوں کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی کے عارضوں کا شکار ہوئے، پاؤں پر کھڑا ہونا بھول گئے اور معذوری ان کی زندگی کا حصہ بن گئی۔

یہ یونٹ اگر بن جاتے ہیں تو یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہوں گے جس کا ثواب ملک ریاض کے ساتھ ساتھ محمد ابراہیم کو بھی ملتا رہے گا کیونکہ اگر یہ بچہ زخمی نہ ہوتا، اگر یہ ملک ریاض تک نہ پہنچتا، اگر ملک ریاض اسے ہارلے اسٹریٹ کلینک میں داخل نہ کراتے اور اگر یہ اس کی عیادت کے لیے نہ آتے تو شاید یہ منصوبہ کبھی شروع نہ ہوتا اور شاید کبھی ان مریضوں کی زندگی میں آس اور امید کا چراغ نہ جلتا جو اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہونے، چلنے، پھرنے، دوڑنے، بولنے اور ہاتھ ملانے کی امید تک کھو بیٹھے ہیں اور آپ اللہ کا کرم بھی ملاحظہ کیجیے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز اس شخص کو بخشا جسے لوگ مذاق میں ریاض ٹھیکیدار کہتے ہیں، جسے ملک کی ہر طاقتور شخصیت اور ہر طاقتور ادارے نے رگڑا لگانے اور ملک سے بھگانے کی پوری کوشش کی اور جو 25 سال سے لوگوں سے صرف ایک سوال پوچھ رہا ہے ’’میرا جرم کیا ہے، میرا قصور کیا ہے، میں نے کیا غلط کیا ہے‘‘ اور جس نے ملک میں لیونگ اور کنسٹرکشن کا پورا تصور بدل دیا لیکن لوگ اس کے باوجود اس کے خلاف ہیں، مخالفت ضرور ہونی چاہیے مگر اس کی کوئی نہ کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیے، وہ وجہ کہاں ہے؟۔

یہ کہانی اگر صرف یہاں تک محدود رہتی ہے تو بھی شاید کوئی کمال نہیں ہو گا، ہمارے ملک میں ایسے درجنوں منصوبے شروع ہوئے، واہ واہ بھی ہوئی لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ منصوبے ماضی میں جذب ہو گئے، ہم ملک میں ویلفیئر کا کوئی بھی ادارہ زیادہ سے زیادہ تیس سال چلا پاتے ہیں، یہ ادارہ بنانے والے کے انتقال کے چند سال بعد آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتا ہے اور جوں ہی ادارے کی دوسری نسل بوڑھی ہوتی ہے، ادارہ مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے، یہ یونٹ بھی اگر یہاں تک محدود رہتا ہے تو یہ بھی چند سال بعد اپنی افادیت کھو بیٹھے گا چنانچہ میری تین درخواستیں ہیں، ایک درخواست حکمرانوں سے ہے، دوسری ملک کے امراء سے اور تیسری ملک ریاض سے۔ حکمرانوں کو ملک ریاض کے تجربے سے سیکھنا چاہیے۔

میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں ہارلے اسٹریٹ کلینک کے مریض رہے ہیں، میاں نواز شریف نے یہاں سے دل کا آپریشن کرایا تھا جب کہ آصف علی زرداری یہاں سے کمر کے درد کا علاج کراتے ہیں، ملک کے دوسرے سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور جرنیل حضرات بھی اس کے مریض رہے ہیں، یہ لوگ ملک ریاض جیسا ’’اینی شیٹو‘‘ کیوں نہیں لیتے؟ یہ لوگ دنیا کے تمام بڑے کلینکس کو پاکستان میں شاخیں کھولنے کی دعوت دیں، یہ انھیں سرکاری زمینیں دیں، بینکوں سے قرضے لے کر دیں اور صحت کے بجٹ سے امداد دیں، یہ کلینکس ملک میں اپنی شاخیں قائم کریں۔

حکومت بس انھیں پابند کرے، یہ تیس فیصد مریضوں کا مفت علاج کریں گے، حکومت ضرورت مند مریضوں کے تخمینے کے لیے ایک باڈی بنا دے، یہ باڈی جس مریض کا نام فائنل کرے ہارلے اسٹریٹ کلینک جیسے ادارے اس مریض کو مفت سروسز فراہم کریں، کیا یہ ممکن نہیں؟ دوسرا، ملک میں ملک ریاض کے پائے کے سو امراء موجود ہیں، یہ لوگ کھرب پتی ہیں، میں ایک ایسے کاروباری شخص کو جانتا ہوں جس کو بینک روزانہ دو کروڑ مارک اپ دیتے ہیں، یہ شخص اگر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے تو بھی اس کی دولت میں روزانہ دو کروڑ روپے کا اضافہ ہو جائے گا، یہ سو لوگ اس قسم کا کام کیوں نہیں کرتے؟ تعلیم اور صحت پاکستان کے دو بڑے مسئلے ہیں، یہ لوگ تعلیم کے اعلیٰ ادارے بنائیں۔

یونیورسٹیاں اور کالج بنائیں یا سرکاری اسکول ’’ٹیک اوور‘‘ کر لیں، یہ لوگ سرکاری اسپتالوں اور صحت کے بنیادی مراکز کی ذمے داری بھی اٹھا سکتے ہیں، حکومت مختلف اضلاع کے سرکاری اسپتال مختلف شخصیات کے حوالے کر دے، حکومت ان اسپتالوں کا بجٹ بھی ان لوگوں کو دے دے، یہ لوگ اس بجٹ میں ذاتی رقم ڈالیں اور اسپتالوں کی حالت بدل دیں، یہ لوگ جدید اسپتال بھی بنائیں، اس سے ملک میں تعلیم اور صحت دونوں مسئلے بھی حل ہو جائیں گے اور ان لوگوں کا ’’کنٹری بیوشن‘‘ بھی سامنے آ جائے گا، یہ لوگ اگر اپنی خدمات کے صلے میں ان اسپتالوں اور ان تعلیمی اداروں کو اپنے نام سے منسوب کرنا چاہیں تو حکومت انھیں یہ اجازت دیدے، اس سے ان لوگوں کی عزت افزائی بھی ہو گی اور ان کی فیملی کے لوگ بھی ان کے انتقال کے بعد ان اداروں کی ’’ٹیک کیئر‘‘ کرتے رہیں گے اور میری تیسری درخواست ملک ریاض سے ہے۔

ملک میں بین الاقوامی سطح کا صرف ایک اسپتال ہے، یہ اسپتال 1985ء میں پرنس کریم آغا خان نے بنوایا تھا اور یہ ان کی نسبت سے آغا خان اسپتال کہلاتا ہے، اس اسپتال کی بیک گراؤنڈ بہت دلچسپ ہے، 1982ء میں پرنس کریم آغا خان کی امامت کے 25 سال پورے ہوئے، دنیا بھر میں امامت کی سلور جوبلی منائی گئی، کراچی کی آغا خان کمیونٹی نے پرنس کریم آغا خان کے وزن کے برابر چاندی اور سونا صدقہ کیا، اس سونے اور چاندی کی مالیت 45 کروڑ ڈالر تھی، اس رقم سے کراچی میں 1985ء میں آغا خان اسپتال بنایا گیا، یہ اس وقت ملک کا جدید ترین اسپتال ہے، ملک ریاض کو بھی اللہ تعالیٰ نے وسائل، انرجی اور جذبہ عنایت کیا ہے۔

یہ اگر اپنی باقی زندگی ہیلتھ سیکٹر کو دے دیں، یہ ’’ملک ریاض انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز‘‘ کے نام سے ملک کا سب سے بڑا اور جدید اسپتال، ملک کا سب سے بڑا ہیلتھ کالج اور ملک کی سب سے بڑی لیبارٹری بنائیں، یہ ادویات سازی کا ایک ایسا ادارہ بھی قائم کریں جس میں مہلک امراض کے علاج دریافت کیے جائیں تو یہ ان کا بحریہ ٹاؤن سے بڑا کارنامہ ہو گا اور یہ کارنامہ ان کا نام ان کے بعد بھی زندہ رکھے گا، آغا خان اگر پیرس میں رہ کر اپنے کراچی کو ملک کا سب سے بڑا اسپتال دے سکتے ہیں تو ملک ریاض پاکستان میں رہ کر ہیلتھ سائنسز کا بڑا ادارہ کیوں نہیں بنا سکتے، میری ملک صاحب سے درخواست ہے، آپ ایک بار اس پر بھی ضرور سوچئے گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس 

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی