کون سا بھٹو، کس کا بھٹو؟  وسعت اللہ خان

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے 38 برس کے دوران جنم لینے والی تیسری نسل کے لیے بھٹو پاکستانی تاریخ کے ایک ذیلی حاشیے، بےنظیر کے والد اور بلاول کے نانا سے زیادہ کچھ نہیں۔

اگر بھٹو ازم تھا بھی تو اب وہ کسی مقدس صندوقچی میں بند ہے جس کا دیدارِ عام پیشہ ور مرثیہ خوان سال میں بس دو دن (پانچ جنوری اور چار اپریل) کرواتا ہے ۔

(جیسے جناح صاحب کی اہمیت اتنی رہ گئی ہے کہ 25 دسمبر کو چھٹی ہوتی ہے اور اقبال کی تو اتنی بھی نہیں رہی)۔

جو سیانے سمجھتے ہیں کہ تاریخی عمل کی گاڑی میں ریورس گئیر نہیں ہوتا، انھیں اپنے مفروضے کی اوقات دیکھنی ہو تو پاکستان سے بہتر مثال کہاں۔

پاکستان کا مولوی بھٹو کی معزولی کے 40 برس بعد بھی 77 جیسی تحریک چلانے کی دھمکی دے رہا ہے۔ اسے بھٹو کی پھانسی کے 38 اور پھانسی دینے والے ضیا الحق کی موت کے 28 برس بعد بھی سیکولر لبرل ڈراؤنے خواب آ رہے ہیں۔ اور اسی بھٹو کے آئین کے تحت قائم اسلامی نظریاتی کونسل کے چوبارے سے 38 برس بعد بھی ’جاگدے رہنا ، ساڈہے تے نہ رہنا‘ کے انتباہات بھی تسلسل سے جاری ہو رہے ہیں۔

عام آدمی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اصلی باتصویر مسائل کی جانب دھیان نہیں بھٹکتا اور سائے کے تعاقب کی عادی سیاسی و مذہبی قیادت کا ذہنی کھوکھلا پن بھی سادہ لوح اکثریت سے پوشیدہ رہتا ہے۔

بھٹو کو دنیا سے ہٹانے کے حق میں ایک تاویل یہ پیش کی جاتی تھی کہ اس جیسوں کے ہوتے پاکستان اپنی نظریاتی منزل کبھی حاصل نہ کر پائے گا۔ لیکن پھانسی کے 38 برس بعد بھی کسی ماتھے پر عرقِ ندامت نہیں کہ نام نہاد نظریاتی ٹرے میں سجے بنیادی مسائل ریلے ریس کے ڈنڈے کی طرح لایعنیت کے ٹریک پر بھاگتی ایک نسل سے دوسری نسل کو جوں کے توں تھمانے کے سوا کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
البتہ اتنی پیش رفت ضرور ہوئی کہ وہ پاکستان جو دولختی کے باوجود بھٹو دور تک بطور ایک سخت جان سٹیٹ جانا جاتا تھا، اگلے 38 برس میں یہ پاکستان نان سٹیٹ اور ریل اسٹیٹ ایکٹرز میں بٹ بٹا گیا ۔

38 برس پہلے کی نوجوان نسل کا آئیڈیل بھٹو تھا، 38 برس بعد ممتاز قادری ہے۔ 38 برس پہلے مولوی اپنے پہ بنائے لطیفے بھی خوش دلی سے سنایا کرتا تھا، 38 برس بعد مذہب کے ٹھیکیداروں نے نے سماج کو ہی زندہ لطیفہ بنا ڈالا۔

38 برس پہلے باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی تاریخ خطِ مستقیم میں سفر کرنے کی عادی تھی، آج گول گول گھوم کے تھکنا سفر کہلاتا ہے۔

رہے بھٹو کے گدی نشین، تو ان کے لیے بھٹو کوئی شخصیت نہیں ایک ٹکسال ہے جو 24 گھنٹے چلنے کے باوجود مالی و اقتداری شکم کی آگ بجھانے میں ناکام ہے۔

بھٹو کا دوسرا نام کئی برس سے ’چلو چلو لاڑکانہ چلو‘ پڑ چکا ہے۔ بھٹو سالگرہ کے کیک اور برسی کی بریانی میں پایا جاتا ہے۔ بھٹو کہنہ سال پیپلز فورٹ میں مقید نکمے شہزادوں کی سیاسی پنشن بک ہے۔ بھٹو پیپلز پارٹی کے میوزیم میں سجا مجسمہ ہے جیسے لاہور میوزیم میں فاسٹنگ بدھا۔

اچھا ہوا بھٹو کو 38 برس پہلے پھانسی لگ گئی۔ کم ازکم یہ تو معلوم ہے کس نے لٹکایا۔ بھٹو کی بیٹی کو تو قاتل کا نام جاننے کی لگژری بھی نصیب نہ ہو سکی۔

ان 38 برسوں میں بتدریج ذہنی ٹریجڈی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوئی جو آج گلی گلی کھلے بالوں گھوم رہی ہے ’میں زندہ ہوں ، میں زندہ ہوں۔‘ کوئی نہیں جو اسے ایدھی شیلٹر ہوم کا راستہ ہی سجھا دے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی