چترال کے زلزلہ متاثرین کا افغانستان کی جانب ہجرت ، صوبائی اور مرکزی حکومت بحالی کے لئے کچھ نہیں کررہیں

چترال (اردو وائس پاکستان 10 مئی 2016) خببر پختونخواہ کا سب سے بڑا ضلع، ضلع چترال صوبائی اورو فاقی حکومت کی بے حسی کے وجہ سے گونا گوں مسائل کا شکار ہے۔ اس جانب صوبائی حکومت تو آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے وہاں وفاق بھی سرد مہری کا مظاہرہ کررہی ہے۔ جولائی 2015 میں چترال میں آئے تباہ کن سیلابوں سے چترالی عوام نہیں نکل پائے تھے کہ 26 اکتوبر 2015 کو آنے والے بڑے زلزنے نے زخموں پر نمک چھڑک دی۔ جس کچھ سیلاب سے بچ گیا تھا اسے زلزلے نے تباہ و برباد کردیا۔ 

ایک وقت تھا کہ چترال کی مثال لوگ سوئزرلینڈ سے دیا کرتے تھے۔ چترال کی قدرتی خوبصورتی زبان زد عام ہوا کرتی تھی۔ نظر بد سیلابی کی تباہ کاریوں اور زلزلوں کی صورت میں چترال کی خوبصورتی کو مدھم کردیا۔ خوبصورتی پر دھول بٹھادی۔ جانی نقصان کے ساتھ ساتھ ناقابل تلافی مالی نقصان ہوا۔ سڑکیں، سکولز، پلیں، بجلی گھر، گھر شدید متاثر ہوئے۔ سیلاب سے تقریباً 30 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ لوگ کھلے آسمان تلے آگئے۔۔۔۔

سیلاب کے اثرات سے لوگ نکل نہ پائے تھے کہ اکتوبر 2015 میں زلزلہ آگیا۔ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ قیامت کا منظر سامنے آگیا۔ 7.6 کی شدت کے زلزلے نے سیلاب اور بارشوں سے متاثر گھروں کو زمین بوس کردیا۔ 19000 گھر تباہ ہوگئے۔ جس میں چرون اویر سمیت کئی دیہات شدید متاثر ہوئے۔ نتیجتاً 33 افراد اپنے پیاروں سے جدا ہوگئے۔ لوگ کھلے آسمان تلے این جی اوز کے دیئے گئے راشن پر خیموں سردیاں گزاریں۔ حکومت کی جانب سے نہ راشن اور نہ گھروں کی تعمیر کے لئے کوئی امداد ملی۔ 

حال ہی میں چترال، دروش کے 450 زلزلہ متاثرین فیملیز صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی جانب سے گھروں کی تعمیر کے لئے امداد نہ ملنے پر احتجاج افغانسان ہجرت کرنے لگے تھے۔ جنہیں افغان سرحد پر چترال سکاوٹ نے روک لیا۔ حکومتوں اور مقامی لیڈرشپ سے مایوس عوام احتجاج پر مجبور ہیں۔ بحالی میں نہ مقامی ، صوبائی اور نہ وفاقی حکومت تعاون کررہی ہے۔

احتجاج کرنے والوں نے ڈی سی چترال اسامہ وڑائچ سے معاہدہ سے انکار کردیا۔ مظاہرین کا درست موقف ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم حیران ہیں کہ لوگ مزاکرات کس چیز کی کررہے ہیں۔ ہم متاثرین ہیں اور بحالی چاہتے ہیں۔ اور یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ متاثرین کو بحال کرے۔ ہمارے گھر تباہ ہوگئے ہیں رہنے کو چھت نہیں۔ اگر ہم اس ملک کے عوام نہیں تو ہمیں افغانستان جانے دیا جائے۔ ہم غریب لوگ ہیں ہمارے پاس اپنے وسائل نہیں کہ ہم اپنے تباہ حال گھر دوبارہ تعمیر کریں۔ 


0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی