چترال/کیلاش (ٹائمز آف چترال مانیٹرنگ ڈیسک) چترال میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وادی کیلاش کے بمبوریت میں کیلاش قبیلے کی ایک لڑکی کی جانب سے مذہب کہا گیا کہ اس سے زبردستی مذہب تبدیل کرایا جارہا ہے ۔ جس پر کیلاشیوں اور مسلم کمیونٹی کے درمیان تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔
جمعرات کو اسی تنازعے کی وجہ سے دونوں فریقوں کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی ہے۔ جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مقامی صحافی انور شاہ کے مطابق پولیس نے فریقین کو منتشر کرنے اور بڑے سانحے سے بچنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔
چترال کے ضلعی پولیس افسر آصف اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ روز ایک کیلاشی لڑکی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے بعد میں ایک خاتون نے اس لڑکی کو دوبارہ کیلاشی مذہب اپنانے کے راضی کر لیا اور انھیں اپنے گھر میں رکھا۔
ڈی پی او کے مطابق دونوں فریقوں کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ ضلعی پولیس افسر کے مطابق پولیس نے لڑکی کو تحویل میں لیکر محفوظ جگہ پر منتقل کر دیا ہے اور دونوں فریقوں کو چترال بلایا ہے تاکہ لڑکی کی مرضی معلوم کرکے مسئلے کو حل کیا جاسکے ۔ اُن کے مطابق اگر مسئلہ افہام و تفہیم سے حل نہیں ہوتا تو پھر دونوں فریقین کے خلاف ایف آئی ار درج کر کے قانونی کارروائی کی جائے گی۔
کیلاش کے سماجی کارکن لوکی رحمت نے بتایا کہ 14 سالا لڑکی رینا نویں جماعت کی طالبہ ہیں اور وہ غلطی سے اسلام قبول کر کے مسلمان ہو گئی ہیں۔ انھوں نے کہا لڑکی اب اپنے خاندان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے اور دوبارہ اپنے مذہب کو اپنانا چاہتی ہے جس پر مسلم کمیونٹی مشتعل ہے۔ رحمت کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں مسلم برادری کی جانب سے تشدد سے کام لیا گیا ہو۔
خیال رہے کہ چترال پاکستان کا نسبتا محفوظ اور سیاحتی علاقہ ہے جبکہ یہاں آباد کیلاش قبائل کی منفرد ثقافت ہے اور انکی رسم و رواج مقامی مسلم ابادی سے یکسر مختلف ہے۔ یہ قبائل یہاں دو ہزار سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہیں۔ کچھ عرصہ قبل افغانستان سے طالبان سرحد عبور کرکے کیلاش آتے تھے اور کیلاشیوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے تھے جس کے بعد سیکورٹی فورسز نے سرحدی علاقوں میں حفاظتی چوکیاں قائم کردی ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں