غزل - تا عمر جشنِ مرگ منانے کے واسطے

غزل | خمارؔ بارہ بنکوی انتخاب

تا عمر جشنِ مرگ منانے کے واسطے
تم سے بچھڑ رہا ہوں زمانے کے واسطے

دن زندگی کے کٹ گئے در پر کھڑے کھڑے
وہ کہہ گئے تھے لوٹ کے آنے کے واسطے

طوفانِ غم کا زور وہی ہے جو تھا مگر
اب اشک ہی نہیں ہیں بہانے کے واسطے

دیوانہ کر دیا ہے مجھے حادثات نے
میں پی رہا ہوں ہوش میں آنے کے واسطے

صحرا میں جا کے خود کو تماشا بنائے کون
گھر کم نہیں ہے خاک اُڑانے کے واسطے

اُن سے عزیز تر ہے مجھے اُن کی جستجو
میں اُن کو ڈھونڈتا ہوں نہ پانے کے واسطے

اتنا کیا ہے یاد اُنہیں میں نے ائے خمارؔ
اک عمر چاہئے ہے بھلانے کے واسطے






0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی