چند فلسفی چلے جارہے تھے۔ چلتے چلتے وہ ایک کو لہو کے پاس پہنچے ، رُکے اور تیلی سے پوچھنے لگے ، میاں یہ تم نے بیل کے گلے میں گھنٹی کیوں باندھی ہوئی ہے۔ تیلی بولا ، وہ اس لیے جناب کہ میں اگر کہیں اپنے کام کاج میں مصروف ہو جاؤں تو مجھے گھنٹی کی آواز آتی رہے علم ہو جائے کہ بیل رُکا نہیں اور کو لہو چل رہا ہے۔ فلسفی کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر
بولے، میاں بات تو تمھاری منطقی
ہے لیکن اگر بیل رُک جائے اور فقط اپنا سر ہلاتا رہے تو پھر کیا کرو گے ؟ تیلی نے اپنا کام چھوڑا، نظریں اُٹھائیں، غور سے ان کو دیکھا اور بولا، جناب یہ بیل ہے کوئی فلسفی نہیں :)
🤣🤣🤣
ایک آدمی زخمی حالت میں پولیس اسٹیشن پہنچا۔
حوالدار کیا ہوا؟
آدمی۔ بیوی سے پٹائی کی۔ حوالدار کیوں؟
آدمی : اس کی ممی اور پاپا ہمارے گھر پر آئے تو اس نے مجھ سے کہا کہ باہر سے اُن
کے لیے کچھ لے آؤ۔
حوالدار تو۔
آدمی : میں ٹیکسی لے آیا۔
موت کا فرشتہ کہنے لگا میں تمھارے لیے
آیا ہوں۔ بندے نے کہا کیوں؟ میں ٹھیک ہوں
خوش ہوں، صحتمند ہوں۔
بولے، میاں بات تو تمھاری منطقی
ہے لیکن اگر بیل رُک جائے اور فقط اپنا سر ہلاتا رہے تو پھر کیا کرو گے ؟ تیلی نے اپنا کام چھوڑا، نظریں اُٹھائیں، غور سے ان کو دیکھا اور بولا، جناب یہ بیل ہے کوئی فلسفی نہیں :)
🤣🤣🤣
ایک آدمی زخمی حالت میں پولیس اسٹیشن پہنچا۔
حوالدار کیا ہوا؟
آدمی۔ بیوی سے پٹائی کی۔ حوالدار کیوں؟
آدمی : اس کی ممی اور پاپا ہمارے گھر پر آئے تو اس نے مجھ سے کہا کہ باہر سے اُن
کے لیے کچھ لے آؤ۔
حوالدار تو۔
آدمی : میں ٹیکسی لے آیا۔
🤣🤣🤣
موت کا فرشتہ کہنے لگا میں تمھارے لیے
آیا ہوں۔ بندے نے کہا کیوں؟ میں ٹھیک ہوں
خوش ہوں، صحتمند ہوں۔
ایک تبصرہ شائع کریں