میرے لیے تو حرف دعا ہو گیا وہ شخص
سارے دکھوں کی جیسے دوا ہو گیا وہ شخص
میں آسماں پہ تھا تو زمیں کی کشش تھا وہ
اترا زمین پر تو ہوا ہو گیا وہ شخص
سوچوں بھی اب اسے تو تخیل کے پر جلیں
مجھ سے جدا ہوا تو خدا ہو گیا وہ شخص
سب اشک پی گیا مرے اندر کا آدمی
میں خشک ہو گیا ہوں ہرا ہو گیا وہ شخص
میں اس کا ہاتھ دیکھ رہا تھا کہ دفعتاً
سمٹا سمٹ کے رنگ حنا ہو گیا وہ شخص
یوں بھی نہیں کہ پاس ہے میرے وہ ہم نفس
یہ بھی غلط کہ مجھ سے جدا ہو گیا وہ شخص
پڑھتا تھا میں نماز سمجھ کر اسے رشیدؔ
پھر یوں ہوا کہ مجھ سے قضا ہو گیا وہ شخص
رشید قیصرانی
ایک تبصرہ شائع کریں