نئیروبی : آغا خان یونیورسٹی (اے کے یو) نے آج صدارتی چیلنج برائے ماحولیاتی حل 2024 کے ایڈیشن کی اختتامی تقریب کا انعقاد کیا، جو مہینوں پر محیط مقابلے کا اختتام تھا۔ اس مقابلے میں پاکستان، کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ جدت پسندوں نے شرکت کی تاکہ دنیا کے سب سے اہم ماحولیاتی مسئلے، یعنی پانی سے نمٹنے کی کوشش کی جا سکے۔
2022 میں شروع کیا گیا صدارتی چیلنج برائے ماحولیاتی حل اے کے یو کے اس یقین سے جنم لینے والا ایک اقدام ہے کہ طلبہ کو ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد میں تماشائی نہیں بلکہ فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس سال کا موضوع "ہر قطرہ اہم ہے" طلبہ کو ایسے عملی اور قابلِ توسیع خیالات تیار کرنے کی تحریک دیتا ہے جو پانی کی قلت اور زیادتی دونوں سے نمٹتے ہوںکیونکہ ماحولیاتی تبدیلی عالمی آبی نظاموں کو بڑھتی ہوئی شدت سے متاثر کر رہی ہے۔
2022 میں شروع کیا گیا صدارتی چیلنج برائے ماحولیاتی حل اے کے یو کے اس یقین سے جنم لینے والا ایک اقدام ہے کہ طلبہ کو ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد میں تماشائی نہیں بلکہ فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس سال کا موضوع "ہر قطرہ اہم ہے" طلبہ کو ایسے عملی اور قابلِ توسیع خیالات تیار کرنے کی تحریک دیتا ہے جو پانی کی قلت اور زیادتی دونوں سے نمٹتے ہوںکیونکہ ماحولیاتی تبدیلی عالمی آبی نظاموں کو بڑھتی ہوئی شدت سے متاثر کر رہی ہے۔
ڈاکٹر سلیمان شہاب الدین ، صدر اور وائس چانسلر ، آغا خان یونیورسٹی نے کہا"لوگ ان قدرتی وسائل پر بات کرتے ہیں جن کی صاف توانائی کی منتقلی کے لیے ضرورت ہو گی لیکن سب سے قیمتی اور فوری درکار وسیلہ انسانی تخلیقیت ہے ، وہ تخلیقیت جس کا ہم آج جشن منا رہے ہیں۔ اگر ہمارے انعام یافتہ طلبہ مستقبل کا پیش خیمہ ہیں تو گلوبل ساؤتھ مستقبل کو تشکیل دینے والی جدتوں میں اپنا بھرپور حصہ ڈالے گا۔"
تنزانیہ سے تعلق رکھنے والی فاتح ٹیم کی انٹری، ڈراپ وائز اسمارٹ ایریگیشن تھی جس میں انہوں نےشمسی توانائی سے چلنے والا خودکار آبپاشی نظام تیار کیا تاکہ زراعت میں پانی کے ضیاع کا مؤثر حل تلاش کیا جا سکے، جہاں 40 فیصد سے زائد آبپاشی کا پانی فرسودہ طریقوں کے باعث ضائع ہو جاتا ہے۔ ٹیم کے ایک رکن نے کہا"یہ آسان نہیں تھا، ہم نے کلاسز، تجاویز، مواد سے متعلق رکاوٹوں اور دیگر مسائل کو ایک ساتھ سنبھالالیکن ہم نے ہار نہیں مانی۔نوجوان صرف مستقبل نہیں بلکہ وہ تبدیلی ہیں جو ابھی رونما ہو رہیں۔ ایک عمل، جدت، ایک قطرہ ایک وقت میں۔"
پہلارنر اپ کینیا کی ٹیم تھی، جن کا منصوبہ پیور فلو ایک جدیدخودکار واٹر پیوریفیکیشن اور مانیٹرنگ سسٹم ہے جو دریاؤں، جھیلوں، ڈیموں اور سمندروں میں پانی کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے تیار کیا گیا ہے اور اسے مہنگے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت نہیں ہے۔
دوسرا رنر اپ کا مقام پاکستان اور کینیا کی دو ٹیموں نے مشترکہ طور پر حاصل کیا۔ پاکستان کی ٹیم نے واٹر ابزوربنٹ میٹ اور فلٹریشن سسٹم تیار کیا جو گھریلو پانی کو محفوظ اور دوبارہ استعمال کے قابل بناتا ہے، جبکہ کینیا کی ٹیم نے اسمارٹ آکوا تجویز کیا جو ایک مصنوعی ذہانت پر مبنی، شمسی توانائی سے چلنے والا جدید آبپاشی نظام جو زراعت میں پانی کے استعمال کا انداز بدل دیتا ہے۔
یونیورسٹی کے اس مقابلے کے ساتھ ساتھ کراچی کے ہائی اسکولوں کے طلبہ نے بھی ایک علیحدہ مقابلے میں حصہ لیا،جس میں 24 اسکولوں کی جانب سے جدت انگیز خیالات پیش کیے گئے۔
آغا خان یونیورسٹی کے ماحولیاتی دفتر کی ڈائریکٹر، مریم کوگیلے نے کہا آغا خان یونیورسٹی بطور ادارہ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے جرات مندانہ اقدامات کر رہا ہے۔ اس میں ہماری اپنی اخراجات میں کمی، شراکت داروں سے تعاون، سپلائرز کو عمل کی طرف راغب کرنا اور ہماری پوری جامعہ کے ساتھ مل کر روزمرہ کی عادات میں تبدیلی شامل ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی ہم سے طویل مدتی سوچ کے ساتھ آج کے عملی اقدامات کا بھی تقاضا کرتی ہے۔"
گزشتہ تین سالوں میں صدارتی چیلنج نے آغا خان یونیورسٹی کے کیمپسز میں سینکڑوں طلبہ کو جرات مندانہ سوچ اور فیصلہ کن اقدام کی ترغیب دی ہے۔ تخلیقیت، جذبے اور عزم کے ساتھیہ نوجوان تبدیلی لانے والے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہر قطرہ اور ہر خیال اہمیت رکھتا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں