زراعت، خواتین کی خودمختاری اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری وقت کی ضرورت

پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) تینوں اہم شعبوں معیشت، معاشرت اور ماحولیات کا احاطہ کرتے ہیں


تحریر: زاہد حسین 

پاکستان آج ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں معاشی بحالی کی امیدیں پھر روشن ہوگئی ہیں۔ ایک ایسی معیشت جو کبھی زوال کا شکار تھی، اب مثبت سمت میں آگے بڑھ رہی ہے اور اس کے پاس علاقائی قوت اور عالمی شراکت دار کے طور پر اپنی پہچان بنانے  کا سنہری موقع ہے۔ مگر ترقی کے اس موڑ پر پہنچنے کے ساتھ ہی ہماری ذمہ داریاں اور بھی بڑھ گئی ہیں، جب کہ فیصلہ کن اقدامات کرنے کا وقت بھی بہت کم رہ گیا ہے۔ پاکستان کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے ایک موسمیاتی تبدیلی بھی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی صرف ماحولیاتی چیلنج نہیں، بلکہ اس سے معیشت کو بھی خطرات لاحق ہیں، جس سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔


پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) تینوں اہم شعبوں معیشت، معاشرت اور ماحولیات کا احاطہ کرتے ہیں




تباہ کن سیلابوں اور پگھلتے ہوئے گلیشیئرز نے 24 کروڑ افراد کی آبی تحفظ کو خطرے میں ڈال دیا ہے، پاکستان کو فوری طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مستحکم انفرااسٹرکچرز تعمیر کرنا ہوں گے، تاکہ دہائیوں سے جاری ترقی کا یہ سفر رک نہ سکے۔ پائیدار ترقی کا انحصار تین ستونوں پر ہے، جن پر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو معاشی ترقی کے غیرمعمولی مواقع مل سکتے ہیں۔ زرعی معیشت میں انقلابی تبدیلی، جو ملک کی 40 فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتی ہے اس میں روایتی طرزِ کاشت سے ہٹ کر جدید ٹیکنالوجی پر مبنی اسمارٹ آبپاشی نظام، موسمیاتی اثرات سے محفوظ فصلیں اور سپلائی چین شامل ہیں، کو ڈیجیٹلائزڈ کرنا ہوگا۔ خواتین ملکی آبادی کا تقریباً 49 فیصد ہیں اور افرادی قوت میں ان کا ایک بڑا ہے، ان کی صلاحیتوں کو اجاگرکرنا اور اس سے استفادہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ جامع مالی شمولیت اور خواتین کو بااختیار بنانے کے اقدامات سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں 30 سے 50 ارب امریکی ڈالرز کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر، مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی تاکہ پاکستان ٹیکنالوجی کے حوالے سے علاقائی ٹیک حب کے طور پر اپنی پہچان بناسکے۔




پاکستان کی معاشی تبدیلی ناگزیر نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جسے اب کرنا ہی ہوگا۔ کیونکہ علاقائی جغرافیاتی صورتحال میں تبدیلی، عالمی سپلائی چین کی تشکیل نو اور تکنیکی انقلاب سے منفرد مواقع پیدا ہوگئے ہیں، تاہم یہ مواقع ہمیشہ دستیاب نہیں ہوں گے۔ اس وقت سوال یہ نہیں کہ پاکستان سرمایہ کاری کرسکتا ہے یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ زرعی جدت، خواتین کو بااختیار بنانے اور ٹیکنالوجی کے استعمال میں تیزی لانے کے لیے کیسے سرمایہ کاری کی جائے؟ کیونکہ جو ممالک موسمیاتی تبدیلی سے ہم آہنگ ہورہے ہیں اور ڈیجیٹل تبدیلی میں مہارت حاصل کررہے ہیں، وہ آئندہ صدی پر حکمرانی کریں گے، اور جو ایسا نہیں کریں گے ان کا معاشی انحصار دوسروں پر ہوگا۔ مستقبل کے لیے ہمیں جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے، جن میں ایک بنیادی ڈھانچہ بھی ہے، جس کی تعمیر میں تیزی لانا ہے، ورنہ ہم بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں پیچھے رہ جائیں گے۔


پاکستان کے وسیع و عریض اور زرخیز منظر نامے کو دیکھتے ہوئے زراعت عملی طور پر ہمارے معاشی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ کئی دہائیوں کی کم سرمایہ کاری، پالیسیوں پر عملدرآمد نہ ہونے اور عطیات پر انحصار نے اس ریڑھ کی ہڈی کو کمزور کردیا ہے۔ اگر پاکستان کو مستحکم، جامع اور معاشی طور پر قابل عمل مستقبل کا خاکہ تیار کرنا ہے تو اسے نجی شعبے کی سرمایہ کاری، کسانوں کی کامیابی کی کہانیوں، خواتین کی شمولیت اور ٹیکنالوجی کے انضمام کے ذریعے حقیقی تبدیلی کی عکاسی کرنے والے ماڈل تیار کرنے ہوں گے۔


پاکستان میں زراعت کو طویل عرصے سے حکومت کا شعبہ سمجھا جاتا رہا ہے، جہاں پرانے طرز کی سبسڈی اسکیمیں اور منقسم سپورٹ سسٹم موجود ہیں، لیکن اب جس پیمانے پر تبدیلی کی ضرورت ہے، اس کے لیے نجی شعبے کی شمولیت ناگزیر ہے۔ یہ شمولیت صرف بیج، کھاد یا ترسیل تک محدود نہیں، بلکہ جدت، انفرااسٹرکچر اور پائیداری جیسے شعبوں میں بھی ہونی چاہیے۔ ایگری بزنس، فوڈ پروسیسنگ، کولڈ اسٹوریج اور فارم ٹو مارکیٹ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسے شعبوں میں اربوں روپے کے مواقع ہیں۔ تاہم ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے خطرات کو کم کرنا ہوگا، قابل عمل پالیسیاں بنانی ہوں اور ایک ایسا وژن اپنانا ہوگا  جہاں کسان کو ایک شراکت دار کے طور پر دیکھا جائے، نہ کہ امداد لینے والا فرد۔


پاکستان کے زرعی لیبر میں خواتین کا حصہ تقریبا 68 فیصد اور مجموعی آبادی میں 49 فیصد ہیں، مگر اس کے باوجود وہ زمین کی ملکیت، مالیاتی نظام اور قیادت جیسے اہم شعبوں میں بڑی حد تک نظرانداز کی گئی ہیں۔ حقیقی معاشی ترقی اور سماجی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے عمل کو اُن پر احسان نہیں بلکہ سرمایہ کاری کے زاویے سے دیکھا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو پیداوار کنندہ، کاروباری شخصیت اور فیصلہ ساز کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ خواتین کی حقیقی بااختیاری کے لیے انہیں قرضوں تک رسائی، تربیت، زمین اور آلات پر حق، زرعی کوآپریٹیوز اور بورڈز میں نمائندگی دی جائے۔



ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ٹیکنالوجی اب کوئی الگ شعبہ نہیں رہا، بلکہ ترقی کے ہر پہلو کو باہم جوڑنے والا ایک دائرہ بن چکا ہے۔ چاہے بات زراعت کی ہو، صنعت کی یا تعلیم کی، ٹیکنالوجی ہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں مستقبل کی جانب لے جا سکتا ہے۔ ہمیں آنے والے وقت میں ایک ”ڈیجیٹل پاکستان“ کو حقیقت بنانے کے لیے سنجیدہ اور منظم اقدامات کرنا ہوں گے۔


پاکستان کو جزوی طور پر نہیں بلکہ مربوط انداز میں انفرااسٹرکچر اور ڈیجیٹل رسائی میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ اسمارٹ سپلائی چینز سے لے کر موسم کی بروقت اطلاعات، بلاک چین پر مبنی زمین کا ریکارڈ، موبائل منی، ڈرون سے نگرانی، فصلوں کی انشورنس، ابتدائی تعلیم، تجارت اور لاجسٹکس، ہر شعبے کو تکنیکی طور پر مستحکم بنانا ہوگا۔ شفافیت، اعتماد اور تیزی، یہ تمام عوامل اسی ڈیجیٹل بنیاد پر یکجا ہوسکتے ہیں۔


پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) تینوں اہم شعبوں معیشت، معاشرت اور ماحولیات کا احاطہ کرتے ہیں، اور یہ اہداف بظاہر مختلف اداروں کے چارٹرز میں نمایاں طور پر شامل بھی ہوتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت کم ادارے ان اہداف کو کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی (CSR) پالیسی کے بجائے اپنے بنیادی مشن کا حصہ بناتے ہیں۔ ایسے چند اداروں میں ایک نمایاں مثال فیصل بینک کی دی جاسکتی ہے، جس نے اسلامی مالیات کے فروغ اور اس سے وابستہ سماجی فلاح و بہبود کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اور ان اصولوں کے تحت ایسے مالیاتی مصنوعات تیار کیے جو اوپر بیان کیے گئے وژن سے ہم آہنگ ہیں۔ دی ڈیجیٹل بینکر کی میزبانی میں گلوبل اسلامک فنانس ایوارڈز (جی آئی ایف اے) 2025ء میں اس کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیا گیا۔ اس ایوارڈ تقریب میں ایف بی ایل کو سال کا بہترین اسلامی بچت اکاؤنٹ (اَمل ویمن اکاؤنٹ)، بہترین اسلامی مالیاتی شمولیت اقدام (خوشحال کسان اکاؤنٹ)، اسلامک ڈیبٹ کارڈ آف دی ایئر (نور ڈیبٹ کارڈ) اور بہترین جنریشن اے آئی انیشی ایٹو (آئی فیصل) کے لیے اعزازات سے نوازا گیا۔ میرے نزدیک ان ایوارڈز کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ تمام اقدامات اسلامی معیشت کے فلاحی تصور سے جڑے ہوئے ہیں، اور یہ ایسی حقیقی مصنوعات ہیں جنہوں نے صارفین کی زندگیوں پر براہ راست مثبت اثر ڈالا ہے۔


اب وقت آ گیا ہے کہ ہم پائلٹ پروجیکٹس سے نکل کر پالیسی کی پشت پناہی کرنے والے پلیٹ فارمز کی جانب بڑھیں۔ CSR کی نمائشوں سے ہٹ کر حقیقی نظام تشکیل دیے جائیں۔ رپورٹس سے آگے بڑھ کر نتائج حاصل کیے جائیں۔ حقیقی تبدیلی تب آتی ہے جب نجی سرمایہ عوامی خواہشات سے جڑتا ہے، جب خواتین قیادت سنبھالتی ہیں اور ٹیکنالوجی بااختیار بناتی ہے۔ اصل مقصد یہ ہونا چاہیے کہ عملی ماڈلز کو وسعت دی جائے، کیونکہ حقیقی تبدیلی ہمیشہ حقیقی ماڈلز سے ہی جنم لیتی ہے۔

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی