کام کی جگہوں کیلئے معیار طے کرنا ، الفاظ اور طرزِ گفتگو کی اہمیت

کام کی جگہوں کیلئے معیار طے کرنا

تحریر محمد طارق

”اور لوگوں سے اچھی بات کیا کرو۔“ (سورۃ البقرہ 83:2)

یہ صرف اللہ تعالیٰ کا ایک حکم نہیں بلکہ ایک رہنما اصول ہے۔ یہ آیت ہمیں وہ سمت بتاتی ہے کہ کس طرح ہم ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں۔ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ الفاظ کی اہمیت صرف معلومات پہنچانے کے لیے نہیں بلکہ مہربانی، انکساری اور احترام کے اظہار کے لیے بھی ہے۔ جب یہی جذبہ ہمارے کام کی جگہ کی ثقافت کا حصہ بن جائے، تو وہ وقار، تعلق اور شرافت کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ اور ایسے اداروں میں جہاں مختلف طبقات، نظریات اور پس منظر کے لوگ اکٹھے کام کرتے ہیں، وہاں ہمارے بولے گئے الفاظ اور طرزِ گفتگو کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ یہی انداز گفتگو ہے جو دلوں کو جوڑتی ہے یا فاصلے پیدا کردیتی ہے۔





فیصل بینک اور پاکستان بزنس کونسل کے سینٹر آف ایکسیلنس اِن ریسپانسبل بزنس (سی ای آر بی) کا اشتراک کارپوریٹ کمیونی کیشن کو ازسرنو ترتیب دے رہا ہے۔ ”گائیڈ آن اِنکلیوسِو کمیونی کیشن اَیٹ دی ورک پلیس“ اپنی نوعیت کی پہلی گائیڈ ہے جو نہ کسی ایچ آر چیک لسٹ کا حصہ اور نہ ہی کسی مارکیٹنگ مہم کا۔ بلکہ یہ ایک فکری دعوت ہے کہ ہم اپنے کام کی جگہوں پر بولے جانے والے الفاظ اور اندازِ گفتگو پر غور کریں، تاکہ ہماری زبان نہ صرف بہترین عالمی روایات کے مطابق ہوں بلکہ اُن روحانی و اخلاقی اقدار کی بھی عکاس ہوں جو پاکستان کے سماجی و ثقافتی ڈھانچے میں رچی بسی ہیں۔


آج کے دور میں جب مختلف نسلوں اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد ایک ہی جگہ کام کرتے ہیں، تو ضروری ہے کہ بات چیت کے معیارات میں صنف، عمر، معذوری، ذات، مذہب، نسل اور لسانی تنوع جیسے پہلوؤں کا خیال رکھا جائے، تاکہ ایسا ماحول تشکیل پائے جو سب کے لیے مساوی اور معاون ہو۔ چاہے بات ”چیئرمین“ کے بجائے ”چیئرپرسن“ جیسے الفاظ کے استعمال کی  ہو، یا ذات و نسل پر مبنی حوالوں سے گریز کرنے کی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعصبات کو ختم کیا جائے اور کام کی جگہوں کو منصفانہ، مہذب اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والا بنایا جائے۔


رہنمائی کے لیے اسلامی اخلاقیات کے لٹریچر سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ سورۃ الشعراء میں نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا گیا: ”اور اپنے پیروکاروں کے لیے اپنے بازو جھکا دو۔“ اس علامتی انداز میں شفقت، انکساری اور جامع قیادت کی تاکید ہے۔ یہ تعلیم آج کے دور کی کام کی جگہوں کے اُس مقصد سے ہم آہنگ ہے کہ ایسا ماحول تشکیل دیا جائے جہاں ہر فرد خود کو محفوظ، محترم اور اہم سمجھے۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں ہمدردی کی وہ مثالیں قائم کیں جن کی نظیر انسانی تاریخ میں کم ملتی ہے۔ آپ ﷺ عورتوں کی بات پوری توجہ سے سنتے، یتیموں کا سہارا بنتے، بیماروں کی عیادت کرتے اور غیرمسلموں و محروم طبقات کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے۔ آپ ﷺ کا یہ طرزعمل ایک ایسا جامع ماڈل ہے جس سے جدید دنیا کو رہنمائی لینی چاہیے۔






عالمی سطح پر دنیا کی کئی معروف کمپنیوں نے معیاری اور باوقار زبان و ابلاغ کی طاقت کو تسلیم کیا ہے۔ مثال کے طور پر مائیکروسافٹ نے اپنے ملازمین کے لیے ”اِنکلیوسِو لینگویج گائیڈ“ شائع کی ہے، جس میں احترام، مساوات اور تعصب سے پاک گفتگو کی ترغیب دی گئی ہے، جبکہ صنفی امتیاز یا معذوری سے متعلق زبان کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ یہ رہنمائی مائیکروسافٹ کے وسیع تر Diversity & Inclusion فریم ورک کا حصہ ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ دہائی کے دوران ادارے میں اقلیتی نمائندگی میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔


اسی طرح سیلزفورس نے بھی جامع ابلاغ کے اصولوں کو اپنے Equality Training Modulesمیں شامل کیا ہے، جو نئے ملازمین کے لیے لازمی ہے۔ ان تربیتی پروگراموں کا مقصد ملازمین کو اپنی گفتگو اور رویوں میں تکلیف دہ اشاروں یا جملوں سے اجتناب کرنا سکھانا ہے۔ ساتھ ہی صنف، نسل و شناخت کے مختلف پہلو رکھنے والے افراد کے ساتھ احترام، ہمدردی اور سمجھ بوجھ پر مبنی تعلقات استوار کرنا بھی سکھایا جاتا ہے۔


ایک نمایاں علاقائی مثال ایمرٹس این بی ڈی کی ہے، جو متحدہ عرب امارات کے نمایاں بینکوں میں سے ایک ہے۔ اس ادارے نے اپنی ایوارڈ یافتہ مہم Together Limitless کے تحت جامع ابلاغ اور معذوری سے متعلق حساسیت کو اپنے ادارے کی ثقافت کا بنیادی اصول بنادیا ہے۔ بینک نے اپنے ملازمین کے لیے معذوروں سے برتاؤ کے حوالے تربیت، معیاری خدمات کے طریقہ کار اور صارفین کے لیے قابل رسائی سہولتوں جیسے Talking ATMs اور Braille Statements متعارف کرائے ہیں۔ عزم کے حامل افراد (معذور افراد کے لیے متحدہ عرب امارات کی جامع اصطلاح) کے ساتھ احترام کی زبان اور طرز عمل کو فروغ دے کر ایمرٹس این بی ڈی نے یہ ثابت کیا ہے کہ کس طرح مسلم دنیا کے مالیاتی ادارے جدید انسانی وسائل کے طریقوں کو ہمدردی، وقار اور سماجی انصاف کے اسلامی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرسکتے ہیں۔ اس طرح بینک نے خطے کے بینکاری شعبے میں شمولیت اور احترام کا ایک نیا معیار قائم کیا ہے۔


تنوع اور شمولیت محض اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ ادارہ جاتی کامیابی میں بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ عالمی تحقیقی مطالعات سے ثابت ہوتا ہے کہ معیاری کام کی جگہیں زیادہ جدت پسند، پیداواری اور منافع بخش ہوتی ہیں۔ میکنزی اینڈ کمپنی کی 2020 کی رپورٹ Diversity Wins کے مطابق وہ ادارے جن کی ایگزیکٹو ٹیموں میں صنفی تنوع زیادہ ہوتا ہے، اُن کیے منافع حاصل کرنے کے امکانات بھی 25 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح ڈیلائیٹ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ معیاری اداروں میں جدت طرازی 6 گنا زیادہ اور بہتر کاروباری نتائج کا حصول 8 گنا زیادہ ہوتا ہے۔






یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک بنیادی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ جب لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے ان کی کارکرگی مزید بہتر ہوجاتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں افرادی قوت نوجوان، متنوع، عالمی رجحانات سے ہم آہنگ اور ڈیجیٹل دنیا سے جڑی ہوئی ہے، اس طرح کی تبدیلی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔


پاکستان کی کام کی جگہیں مختلف ثقافتی اور سماجی پیچیدگیوں سے گھری ہوئی ہیں، جن میں شہری و دیہی فرق، نسلی و لسانی حساسیت، مسلکی اختلافات، طبقاتی تفریق اور صنفی عدم مساوات جیسے پہلو شامل ہیں۔ اگر ان پہلوؤں پر توجہ نہ دی جائے تو یہ روزمرہ رویوں میں ظاہر ہونے لگتے ہیں جیسے غیرمناسب مذاق، بھرتی کے عمل میں تعصب، فیصلوں سے کسی کو الگ رکھنا یا میٹنگ کے دوران کسی کی بات کو نظرانداز کر دینا۔


ایک جامع ابلاغی گائیڈ لائن ایسے مسائل کو بغیر کسی نصیحت اور لیکچر کے موثر انداز میں اجاگر کرتی ہے۔ ”وہ ٹیکنالوجی کے شعبے کے لیے بہت سینئر ہے“ یا ”وہ قیادت کے لیے بہت جونیئر ہے“ جیسے جملے نہ صرف حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں بلکہ اداروں کو مختلف زاویہ نظر اور قیمتی نقطہ نظر سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ اسی طرحHandicapped کے بجائےPerson with Disability (PWD) کہنا گفتگو میں احترام، شائستگی اور وقار کو فروغ دیتا ہے۔


اب جب کہ بنیاد رکھ دی گئی ہے، امید ہے کہ یہ اقدام فروغ پائے گا۔ تعلیمی ادارے، سرکاری محکمے، اسپتال اور نجی شعبے، ہر کوئی قابل احترام اور ذمہ دار کمیونی کیشن کلچر سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔


آئیے ہم اپنے الفاظ کو وہ طاقت بخشیں جو کاروباری اور سماجی ماحول میں دیرپا مثبت تبدیلی لاسکیں۔ ایسی تبدیلی جو ہر فرد کے لیے مساوی مواقع، باہمی احترام اور خوشگوار تعلقات کو یقینی بنائے۔ ایسے الفاظ جو ہمدردی، انصاف اور دوسروں کے بارے میں سوچنے کے انداز کو تبدیل کرنے کی ہمت دیں۔



0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی