بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے ٹیلی کام سیکٹر میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی ختم ہو رہی ہے: شاہد رشید بٹ

موبائل کمپنیاں منافع کے بجائے بقاءکی فکر میں ہیں، سروس کا معیار گر رہا ہے، بایو میٹرک تصدیق سے صارفین کم ، کمپنیوں پر سات ارب روپے کا بوجھ پڑا، عوام کی بھاری اکثریت تھری اور فور جی کے ثمرات سے محروم، ترقی کا عمل متاثر 


اسلام آباد (اردو وائس پاکستان) اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز کے سرپرست شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ توانائی بحران، امن و امان کی دگرگوں صورتحال اور عالمی کساد بازاری جیسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے والا ٹیلی کام سیکٹر ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے سرمایہ کاروں کیلئے پر کشش نہیں رہا ۔ٹیلی کام کمپنیاں منافع کے بجائے اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہی ہیں اور سرمایہ کاری کی کمی نے چند شہروں کو چھوڑ کر ملک بھر کے عوام کو تھری اور فور جی کے ثمرات سے محروم کر رکھا ہے جبکہ سروسز کا معیار بھی بتدریج گر رہا ہے جس سے ملکی ترقی کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔


پاکستان میںدنیا کے 194 ممالک سے زیادہ ٹیلی کام ٹیکس عائد ہیںجبکہ عالمی اداروں کے مطابق ٹیلی کام سروس کی قیمت میں ایک فیصد اضافہ سے اسکے استعمال میں 0.2 فیصد سے 3.8 فیصد تک کمی آتی ہے جس سے شرح نمو متاثر ہوتی ہے۔شاہد رشید بٹ نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ اشیائے تعیش پر دس فیصد ایڈوانس ودھولڈنگ ٹیکس عائد ہے جبکہ ٹیلی کام سیکٹر پریہی ٹیکس چودہ فیصد کے تناسب سے عائد کیا گیا ہے جو حیران کن ہے۔اس شعبہ پر ٹیکسوں کا مجموعی بوجھ چالیس فیصد ہے جو ناقابل برداشت ہے۔

موبائل فون اور موبائل انٹرنیٹ کا ملکی ترقی اور غربت میں کمی سے براہ راست تعلق ہے مگر اسکے باوجود اس اہم شعبہ کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا گیا ہے۔پاکستان میں 13 کروڑ موبائل صارفین ہیں جن میں سے صرف ایک کروڑ اسی لاکھ انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیںجنکی تعداد بڑھنے کے بجائے کم کی جا رہی ہے۔سموں کی بایو میٹرک تصدیق کے فیصلے سے جہاں صارفین کی تعدادمیں کروڑوں کی کمی آئی وہیں موبائل کمپنیوں پر تقریباً سات ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا۔صورتحال بدلنے کیلئے ٹیلی کام انڈسٹری پر عائد ٹیکسوں کو کم کرنا ہو گا۔

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی