باچا خان یونیورسٹی حملے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 25 ہوگئی، پروفیسراور طالب علم شامل



پشاور/چارسدہ (اردو وائس پاکستان 20 جنوری 2016) آج صبح باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملے میں 25 افراد اب تک شہید ہوچکے ہیں۔ کئی افراد زخمی ہیں۔ یونیورسٹی کے کیمیسٹری ڈپاٹمنٹ کے پروفیسر حامد حیسن بھی شہداء میں شامل ہیں۔ طلباء سیکیوریٹی گارڈسمیت 25 افراد شہید ہوگئے ہیں۔ 

آج 11 بجے کے قریب دہشت گردوں نے یونیورسٹی پر حملہ کردیا۔ دہشت گردوں اور پولیس کے درمیان کافی دیر تک فائرنگ ہوتی رہی۔ بعد ازان پاک فوج کے کمانڈوز کو بلوالیا گیا اس دوران فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔ فوج کے جوانوں نے یونیورسٹی کے سینکڑوں طلباء کو بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ حملے کے فوراً بعد چارسدہ اور پشاور کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ کئی زخمی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ تاہم اب تک 25 شہادتوں کی تصدیق ہوچکی ہے اور تعداد میں اضافے کا حدشہ ہے۔ 

آج بدھ کو باچاخان یونیورسٹی میں قوم پرسٹ پشتون رہنما باچا خان کی برسی کے موقع پر مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں عملے سمیت بڑی تعداد میں طلباء شریک تھے۔ اور صبح کے سوا 9 بجے فائرنگ کی اچانگ آوازیں آنی شروع ہوئیں اور ساتھ ساتھ دھاکے بھی ہوئے آوازیں سن پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور مقابلہ شروع ہوگیا۔ دریں اثنا فوج کے کمانڈوز کو بھی بلوالیا گیا۔ حملہ آوروں کی تعدا 6 سے 8 تک بتائی جاتی ہے۔

وزیراعظم نواز شریف اور صدر ممنون حسین نے حملے کی شدید مذمت کی ہیں اور کہ بے گناہ معصوم شہریوں اور طالب علموں کا نشانہ بنانے والوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور ہر صورت ملک سے دہشت گردی اور دہشت گردوں خاتمہ کرکے ہی سانس لیں گے۔ 


فوج کے تعلقات عامہ کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں 4 دہشت گردوں کو ماردیا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک ہونے والے دہشت گرد ہاسٹل کے اندر موجود تھے اور وہاں سے فائرنگ کررہے تھے۔ 

یونیورسٹی کے وائس چانسلر فضل الرحیم نے کہا کہ یونیررسٹی میں 3 ہزار طلباء اور 600 مہمان موجود تھے اور باہر سے فائرنگ کی جاتی رہی۔ دھند کے باعث کسی کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا اور دہشت گرد دھند کا فائدہ آٹھا کر اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یونیورستی میں 2 ہاسٹل لڑکوں اور 1 لڑکیوں کا کا ہے۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ یونیورسٹی کے گارڈز نے دہشت گردوں سے مقابلہ کیا 3 گارڈز زخمی بھی ہوئے۔ فائرنگ کی آواز سن کر پولیس اور بعدازاں فوج بہنچ گئی۔ اسی اثناء میں دہشت گرد اندر داخل ہوچکے تھے اور مختلف جگہوں پر پوزیشن لئے ہوئے تھے۔ حملہ بھی اے پی ایس سکول طرز کا تھا دہشت گرد اندھا دھند فائرنگ کررہے تھے۔

عمران خان نے ہسپتالوں میں زخمیوں کو ہر ممکن طبی سہولتیں دینے کی ہدایت کی ہے۔ تمام ہذہبی اور سیاسی رہنمائوں نے واقعے کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے اور دہشت گردوں سخت جواب دینے پر زور دیا ۔ 

ڈی آئی جی چارسدہ سعید وزیر نے کہا کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور اپنے آپ کو زندہ ظاہر کرنے کے لئے مذموم کاروائیاں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فائرنگ کے تبادلے میں پولیس کے 3 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

خیبر پختونخوہ حکومت نے 3 روزہ سوگ اور پرچم سرنگون رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

0/کمنٹس:

جدید تر اس سے پرانی